کمانڈر سیف گارڈ نوزائیدہ بچوں کا قاتل! صحت دشمن صابن حاملہ خواتین کے لیے انتہائی خطرناک
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل)حفظانِ صحت اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے ہاتھ دھونے کو سب سے بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے، لیکن بار بار اینٹی بیکٹریل صابن سے ہاتھ دھو کر آپ نادانستہ طور پر خود کو خطرناک بیماریوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اینٹی بیکٹریل صابن میں موجود کیمیکلز ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن آپ کے جسم میں مزاحمت رکھنے والے مزید بیکٹیریا پیدا کر رہے ہیں۔چند سال قبل مشہور امریکی جریدے فاربس نے یونیورسٹی آف Tennesseeکی ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی۔ اس تحقیق کے نتائج نے اینٹی بیکٹریل صابن بنانے والے اداروں کی نیندیں حرام کردیں، اس تحقیق کے مطابق زیادہ تر اینٹی بیکٹیریل صابن( سیف گارڈ، ڈائل، زیسٹ ، ڈیٹول اور لائف بوائے) میں موجود کیمیکل ٹرائی کلوسین دودھ پینے والے بچوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اس تحقیق کے نتائج کو سان فرانسکو کی اینڈو کرائنولوجی سوسائٹی کی سالانہ میٹنگ میں پیش کیا گیا۔اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے Jiangang Chen اور ریبیکا کینیڈی نے اس میٹنگ میں بتایا کہ ٹرائی کلوسین کے شیر خوار بچوں پر مرتب ہونے والے مہلک اثرات کا جائزہ لینے کے لیے لیبارٹری میں چوہوں پر ایک تجربہ کیا گیا۔
پندرہ منٹ تک اینٹی بیکٹریل صابن سے نہانے والے انسانوں کے خون میں ٹرائی کلوسین کی مقدار اتنی ہی پائی گئی جتنی ایک حاملہ چوہیا کے خون میں تھی۔ریسرچ کے مطابق چوہوں پر ہونے والے تجربات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’ سیف گارڈ‘، ڈائل، زیسٹ اور اس نوعیت کے بہت سے اینٹی بیکٹریل صابن ہینڈ اور باڈی واش میں موثر جز کے طور پر استعمال ہونے والا ٹرائی کلوسین چوہوں اور ان کے شیر خوار بچوں کے لیے زہر قاتل تو ہے ہی لیکن انسانوں پر اس کے اثرات کم و بیش اسی نوعیت کے ہیں ۔
اس تجربے میں تین گروپ بنائے گئے، پہلے گروپ میں شامل دودھ پلانے والی چوہیوں کو ٹرائی کلوسین کی بھاری مقدار دی گئی، دوسرے گروپ کو ٹرائی کلوسین کی کم مقدار اور تیسرے گروپ کو ٹرائی کلوسین سے بالکل دور رکھا گیا۔ دودھ پلانے والی چوہیوں پر ہونے والے اس تجربے کے نتائج نے محققین کو ہلا کر کر رکھ دیا۔وہ چوہیا جسے ٹرائی کلوسین کی بھاری مقدار دی گئی ان کے بچے چھ دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے، جب کہ کم مقدار میں ٹرائی کلوسین دی جانے والی چوہیوں میں صرف 30میں سے 4 بچے دودھ چھڑانے کے بعد 21دن تک زندہ رہے۔ جب کہ کنٹرول گروپ میں رہنے والے چوہے کے بچوں کی زندگی سو فیصد محفوظ رہی۔
کینیڈی اور چین کے مطابق اس تحقیق کا سب سے دلچسپ نکتہ تو یہ ہے کہ 15 منٹ تک اینٹی بیکٹریل صابن سے نہانے والے انسانوں کے خون میں ٹرائی کلوسین کی مقدار اتنی ہی پائی گئی جتنی مقدار ایک حاملہ چوہیا کے خون میں تھی۔ ریسرچ کے مطابق چوہوں پر ہونے والے تجربات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’ سیف گارڈ‘، ڈائل، زیسٹ اور اس نوعیت کے بہت سے اینٹی بیکٹریل صابن ہینڈ اور باڈی واش میں موثر جز کے طور پر استعمال ہونے والا ٹرائی کلوسین چوہوں اور ان کے شیر خوار بچوں کے لیے زہر قاتل تو ہے ہی لیکن انسانوں پر اس کے اثرات کم و بیش اسی نوعیت کے ہیں تاہم اس کا جائزہ لینے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیق ضروری ہے۔
چند سال قبل مشہور امریکی جریدے فاربس نے یونیورسٹی آف Tennesseeکی ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی۔ اس تحقیق کے نتائج نے اینٹی بیکٹریل صابن بنانے والے اداروں کی نیندیں حرام کردیں، اس تحقیق کے مطابق زیادہ تر اینٹی بیکٹیریل صابن( سیف گارڈ، ڈائل، زیسٹ ، ڈیٹول اور لائف بوائے) میں موجود کیمیکل ٹرائی کلوسین دودھ پینے والے بچوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اس تحقیق کے نتائج کو سان فرانسکو کی اینڈو کرائنولوجی سوسائٹی کی سالانہ میٹنگ میں پیش کیا گیا۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس تحقیق کے نتائج کو اینٹی بیکٹریل صابن اور دیگر مصنوعات بنانے والے اداروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانا بنایا گیا۔ایک تجارتی آرگنائزیشن امریکن کلیننگ انسٹی ٹیوٹ( اے سی آئی) سابقہ سوپ اینڈ ڈیٹرجنٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے اس تحقیق میں شامل محققین پر الزام عائد کیا گیا کہ ’انہوں نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے معصوم چوہوں کو ٹرائی کلوسین کی بھاری مقدار دی۔‘ لیکن کینیڈی اور چین کی ٹرائی کلوسین پر تحقیق اس نوعیت کی کوئی پہلی تحقیق نہیں ہے۔ ان سے پہلے بھی ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن پر ہونے والی متعدد تحقیقات اس بات کی گواہی دے چکی ہیں کہ اینٹی بیکٹیریل صابن میں استعمال ہونے والا یہ کیمیکل انسانی نشوونما پر مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایف ڈی اے ( فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ) کی موجودہ پالیسی میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اینٹی بیکٹیریل صابن اور ہینڈ واش بنانے والی کمپنیاں ابھی تک اس بات کے شواہد پیش نہیں کر سکی ہیں کہ اینٹی بیکٹیریل صابن اور ہینڈ واش عام صابن اور ہینڈ واش سے زیادہ موثر ہیں۔ ریسرچر کینیڈی کے مطابق ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن ساختی لحاظ سے مختلف ہیں،’ ان دونوں کمپاؤنڈز پر ایک ساتھ تحقیق اس لیے کی جاتی ہے ،کیوں کہ یہ دونوں کیمیکل پرسنل کیئر مصنوعات میں دافع جراثیم ( antimicrobials) کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ دونوں کمپاؤنڈز بالواسطہ اور بلا واسطہ ایکسپوژر کے ذریعے انسانی صحت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔یہ دونوں کیمیکل ہماری روزمرہ استعمال کی تقریباً ہر مصنوعات میں استعمال ہورہے ہیں۔ ماضی میں کی گئی دیگر ریسرچ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ سیف گارڈ اور اس جیسی اینٹی بیکٹیریل مصنوعات کے انسانی صحت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے یو سی ڈیوس میڈیکل سینٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ اینٹی بیکٹیریل مصنوعات کی انسان کی ہارمونل ڈیویلپمنٹ پر مرتب ہونے والے مہلک اثرات بہت زیادہ ہیں۔ خصوصاً حاملہ خواتین اور نئی بننے والی ماؤں کو تو کوئی بھی اینٹی بیکٹیریل پراڈکٹ خریدنے سے پہلے دو بار سوچنا چاہیے۔
اینٹی بیکٹریل صابن سے ہاتھ دھو ناخود کو خطرناک بیماریوں کے سامنے پیش کرناہے، اس میں موجود کیمیکلز ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن جسم میں مزاحمت رکھنے والے مزید بیکٹیریا پیدا کر تے ہیں
اینٹی بیکٹریل مصنوعات کی انسان کی ہارمونل ڈیویلپمنٹ پر مرتب ہونے والے مہلک اثرات بہت زیادہ ہیں، خصوصاً حاملہ خواتین اور نئی بننے والی ماؤں کے لیے یہ انتہائی مہلک ہیں( تحقیق)
اینٹی بیکٹریل صابن میں استعمال ہونے والے کیمیکلز جانوروں میں اینڈوکرائن غدود میں بے ترتیبی پیدا کرتا ہے،اس غدود میں بے ترتیبی کینسر،بانجھ پن اور نشوونما میں تاخیرکا سبب بنتی ہے
یوسی ڈیوس میں ہونے والی تحقیق بھی کینیڈی اور چین کے نتائج کی توثیق کرتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج بھی اسی بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اینٹی بیکٹیریل صابن میں استعمال ہونے والے کیمیکل لیبارٹری میں انسانی خلیوں اور چوہوں کی ہارمونل سرگرمیوں میں تبدیلی کر دیتے ہیں۔ لیبارٹری تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کیمیکلز جانوروں میں اینڈوکرائن غدود میں بے ترتیبی پیدا کرتا ہے جس کے لیے طبی زبان میں ’اینڈوکرائن ڈسرپٹنگ سبسٹینس(ای ڈی ایس)‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اس غدود میں بے ترتیبی کینسر،بانجھ پن اور نشوونما میں تاخیرکا سبب بنتی ہے۔ اینٹی بیکٹریل کمپاؤنڈ ٹرائی کلو کاربن(TCC یا 3,4,4′-trichlorocarbanilide) کے ہارمونز پر اثر انداز ہونے پر کی گئی اس پہلی تحقیق کے مطابق ریسرچر نے اینٹی بیکٹیریل جز کے دو اثرات تلاش کیے۔ لیبارٹری میں انسانی خلیوں پر ہونے والے تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ ٹرائی کلوسین ٹیسٹوایسٹیرون کو ریگولیٹ کرنے والے جین میں اضافہ کردیتاہے اور جب ریسرچر نے نر چوہے کو ٹرائی کلوسین کھلایا تو اس کا ٹیسٹو ایسٹیرون پرانحصار کرنے والا عضو ( پراسٹیٹ گلینڈ) غیر معمولی طور پر بڑھ گیا۔
امریکا میں کچھ عرصے قبل ہونے والے ایک سروے کے مطابق ٹرائی کلوسین مارکیٹ میں فروخت ہونے والے 75فیصد سے زائد صابن،مائع صابن ٹوتھ پیسٹ ، ماؤتھ واش ، کاسمیٹک اور دیگر مصنوعات میں پایا جاتا ہے۔ٹرائی کلوسین اینٹی بیکٹیریل صابن اور ڈیو ڈورینٹ میں استعمال ہونے والاایک عام مرکب ہے اورصرف امریکا میں ہی اینٹی بیکٹیریل مصنوعات کی سالانہ فروخت ڈیڑھ ارب ڈالرسے زائد ہے۔ ماحولیات کے لیے کام کر نے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نیشنل ریسورسز ڈیفنس کونسل ( این آر ڈی سی) ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے متعدد رپورٹ شائع کر چکی ہے۔ این آر ڈی سی کی ایک تحقیق رپورٹ کے مطابق ’جانوروں پر ہونے والی تحقیق کے مطابق اینٹی بیکٹیریل صابن میں استعمال ہونے والا ٹرائی کلوکاربن جنسی ہارمون، ٹیسٹو ایسیٹرون اور ایسٹروجین کو بڑھا دیتا ہے جس سے مردوں میں پراسٹیٹ اور عورتوں میں بریسٹ کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ ٹرائی کلوسین ٹیسٹو ایسٹیرون اورتھائرائیڈ ہارمون کی پیدوار میں کمی کردیتا ہے جس سے بانجھ پن، طرز عمل میں تبدیلی اور سیکھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔
اینٹی بیکٹیریل مصنوعات خصوصاً صابن کے استعمال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ نہ صرف انسانی جلد کے لیے مفید بیکٹیریا کو ختم کر کے جلدی امراض کا سبب بنتا ہے بلکہ اس سے اینٹی بایوٹک مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا بھی پیدا ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایف ڈی اے کی جانب سے ٹرائی کلوسین کے ممکنہ نقصانات کی فہرست میں بیکٹیریل مزاحمت سب سے پہلے ہے۔
اینٹی بایو ٹک کا بہت زیادہ استعمال ’ مزاحمت‘ کا سبب بنتا ہے ، جس کے نتیجے میں مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں بن جاتی ہیں۔جو کیمیکل کے ایکسپوژر کے باجود ختم نہیں ہوتی۔ اور اگر اس کیمیکل کو متواتر استعمال کیا جائے تو یہ دوسرے بیکٹیریا کو تو ختم کردیتا ہے، لیکن مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کی کالونیوں کو پرولیفیریٹ(خلیوں کی تقسیم سے افزائش) کردیتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں کوئی بھی کیمیکل بیکٹیریا کے خلاف کار گر ثابت نہیں ہوتا۔(جاری ہے)