میانمار میں پھر آگ و خون کا رقص،روہنگیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور
شیئر کریں
ایک گاو¿ں میں 25 لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیاگیا،میانمار حکومت نے تسلیم کیا کہ اس کی فوج نے مسلم آبادی والے دیہات پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی
سوشل میڈیا پر آنے والی تصویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرنے والوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں،ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 430 عمارتوں کو جلایا گیا،عالمی ادارے خاموش
میانمار میں فوج کے کریک ڈاو¿ن سے بچنے کے لیے اراکان (ریخائن )کے روہنگیا مسلمان سینکڑوں کی تعداد میں سرحد پار کر کے بنگلا دیش میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔نقل مکانی کرنے والے افراد میں بچے بھی شامل ہیں۔بنگلا دیشی حکام اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھاگنے کی کوشش کر رہیں انھیں گولیاں مار کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاست رخائن میں جاری فوجی آپریشن کے دوران ایک ماہ کے عرصے میں کم از کم 130 افراد مارے جا چکے ہیں۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سینکڑوں مکانات نذر آتش کر دیے گئے ہیں اور غیر ملکی صحافیوں کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ تاہم حکومت نے ان دعوو¿ں کو مسترد کیا ہے۔خیال رہے کہ رخائن میں لاکھوں روہنگیا مسلمان بستے ہیں جنھیں میانمار کا شہری نہیں تسلیم کیا جاتا۔اور برسوں سے ان مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ،نسل کشی کی کوشش میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف نہ عالمی برادری نے اب تک کوئی قدم اٹھایا ہے اور نہ ہی وہاں کی سابقہ اپوزیشن لیڈر اور موجودہ حکمران جماعت کی سربراہ نوبل انعام یافتہ خاتون آنگ سانگ سوچی نے بھی کسی بھی قسم کی مدد سے ہمیشہ انکار کیا ہے ۔لوگوں کے خیال میں وہ غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزین ہیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل رواں ہفتے کے آغاز میں میانمار میں فوج نے کہا تھا کہ اس نے روہنگیا مسلمانوں کے ایک گاو¿ں میں 25 لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔میانمار کی حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی فوج نے ریاست رخائن میں ان دیہات پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی جہاں روہنگیا مسلم اقلیت آباد ہے۔
افسوس کی بات جانوروں کے مرنے یا معمولی معمولی معاملات پر شور مچانے والے انسانیت کے علمبرداروں کو بے گناہ انسانوں کے قتل کے اعتراف کے ا س بیان کے باوجود بھی کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا۔اس سے قبل بھی صوبہ اراکان کے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے درجنوں فوجی آپریشن کیے گئے جس کے خلاف عالمی برادری کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
ریاست رخائن میں کسی آزاد میڈیا کو رسائی حاصل نہیں ہے اس سے کسی بھی سرکاری بیان کو کافی تنقیدی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔
میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق ’روہنگیا مسلمانوں نے 130 گھروں کو نذرِ آتش کیا تاکہ غلط فہمی پیدا کی جائے اور بین الاقومی امداد حاصل کی جا سکے۔‘
اس سے پہلے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ فوجی قافلے پر گھات لگا کرحملے کیے گئے۔ ایک حملے کے بعد ہونے والے تصادم میں دو فوجی اور چھ حملہ آور ہلاک ہو گئے تھے۔اطلات کے مطابق رخائن کے علاقے میں کچھ دیہات کو جلایا بھی گیا تھا۔میانمار کی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس کی فوج نے ریاست (اراکان) رخائن میں ان دیہات پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی جہاں روہنگیا مسلم اقلیت آباد ہے۔میانمار کی فوج نے مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والی لوگ خنجروں اور لاٹھیوں سے لیس تھے۔
فوج کے مطابق یہ حملہ مسلح عسکریت پسندوں کے خلاف ’کلیئرنس آپریشن‘ تھا۔سوشل میڈیا پر آنے والی تصویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرنے والوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کی گئی تصاویر میں جلے ہوئے گاو¿ں دِکھائے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں 430 عمارتوں کو جلایا گیا۔
گزشتہ ماہ جھڑپوں اور عام شہریوں کے علاقے سے چلے جانے کی اطلاعات کے بعد مواصلاتی سیارے کے ذریعے یہ تصاویر 22 اکتوبر اور 10 نومبر کے درمیان لی گئی ہیں۔روہنگیا کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت مسلمان اقلیت کو اپنے دیہات سے نکلنے پر مجبور کر رہی ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار جونا فشر کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر حملے کرنا فوج کا ایک مقبول کام ہے۔
٭٭٭