سفر یاد۔۔۔ قسط 13
شیئر کریں
شاہد اے خان
گلزارکی دوکان کافی بڑی تھی،کئی فرج واشنگ مشینیں اوردیگر اشیا مرمت کے لیے موجود تھیں، دوکان کے ایک کونے میں اس نے سلنڈر اور چولہا بھی رکھا ہوا تھا ،وہیں کیبنٹ میں نمک مرچ اور مسالے رکھے ہوئے تھے۔ گلزار نے ہمیں بیٹھنے کے لیے اسٹول پیش کیا اور خود چولہے کے پاس جا کر پیاز کاٹنے میں لگ گیا۔ ہم بھی اسٹول اٹھا کر اس کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ گلزار کو مہارت کے ساتھ پیاز ٹماٹر کاٹتے دیکھ کر ہمیں کچھ حیرانی ہوئی، پوچھ ہی لیا کیا کھانا خود ہی پکاتے ہو؟ گلزار نے ایسے دیکھا جیسے ہم نے کوئی انوکھی بات پوچھ لی۔ پھر بولا بھائی خود نہیں پکائیں گے تو کون پکا کر کھلائے گا، یہ پردیس ہے بھائی ،یہاں کھانا بھی پکانا پڑتا ہے ،برتن اور کپڑے بھی خود ہی دھونے پڑتے ہیں، بیمار پڑجائیں تو خود ہی اپنی تیمارداری بھی کرنا پڑتی ہے۔ آپ نئے نئے آئے ہیں کچھ وقت گزرے گا تو پتا چلے گا پردیس کاٹنا خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔ گلزارکے لہجے میں سادگی اور سچائی تھی۔ ہم نے پوچھا دوکان میں کیوں کچن بنایا ہوا ہے، اس کی تو اجازت نہیں ہوگی۔ گلزار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری پھر کہا :اصل میں میری رہائش کافی فاصلے پرہے ، سواری کوئی ہے نہیں، آنے جانے میں کافی ٹائم لگ جاتا ہے اور دوکان بند کرکے جانا پڑتا ہے، اس لیے میں نے یہیں چولہا لگا لیا ، باہر سے اس کا پتہ نہیں چلتا۔ مجبوری ہے بھائی کرنا پڑتا ہے ،دکان دو گھنٹے بند رہے گی تو کام کا نقصان ہوگا اور ویسے بھی گاہک اور موت کا کچھ پتہ نہیں کب آ جائے۔ میں نے پوچھا کب سے ہو سعودی عرب میں، جواب ملا میٹرک کیا تھا تو والد کا انتقال ہوگیا، گھرچلانے میں بڑے بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے بجلی کی ورکشاپ پر بیٹھ گیا، وہاں کچھ عرصہ کام سیکھا پھر اپنا کام شروع کردیا مگر پورا نہیں پڑتا تھا۔ لوگوں نے ماں سے کہا گلزار کوعرب ملک بھیج دووہاں ٹیکنیکل کام کی بہت مانگ ہے ،وہاں زیادہ کمائے گاتو گھر کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ ماں اور بھائیوں کے کہنے پر قرض ادھار لیکر آزاد ویزا خریدا اور سعودی عرب آگیا۔ کئی سال جدہ اور تبوک میں دھکے کھانے کے بعد ریاض پہنچا ،پیسے کم تھے اس لیے جنادریہ میں ورکشاپ بنایاہے ۔ابھی ایک سال ہی ہوا ہے یہاں ،کام اچھا چل رہا ہے لیکن کفیل کی جانب سے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں، کمائی کا بڑا حصہ وہ لے جاتا ہے ۔کرایہ، بجلی ، پانی کا بل اور خرچے سب ہمارے ذمے ہیں لیکن کمائی میں کفیل کا حصہ زیادہ ہے، کسی سے شکایت بھی نہیں کرسکتے ،ورنہ جو مل رہا ہے اس سے بھی جائیں گے۔ میں نے پوچھا پاکستان کے کتنے چکر لگائے تم نے ، گلزار کی آنکھوں میں نمی تیر گئی ، بولا پانچ سا ل ہوگئے سعودی عرب آئے ہوئے، ہر سال سوچتا ہوں گھر کا چکر لگا لوں ہر سال گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا کام پڑجاتا ہے جس کے لیے اضافی پیسے بھیجنے پڑ جاتے ہیں، ویسے ان پانچ سال میں دو بہنوں کی شادی کردی ہے، مکان پکا ہو گیا ہے اور بڑے بھائی نے بھی اپنا کاروبار شروع کردیا ہے۔
ہم نے پوچھا گھر کی یاد تو آتی ہوگی، گلزار نے گہری سانس لی لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ اٹھتے ہوئے بولا سالن تیار ہوگیا ہے میں روٹی لے کر آتا ہوں، آپ ہاتھ دھو لیں۔ کچھ دیر بعد گلزار گرما گرم مصری روٹیاں لے آیا۔ اتنی دیر میں ہم قریبی بقالے سے کولڈ ڈرنگ کی لٹر والی بوتل لے آئے تھے، گلزار نے کولڈ ڈرنک دیکھی تو ناراض ہو گیا، بولا بھائی جان آپ میرے مہمان ہیں آپ کو کولڈ ڈرنک نہیں لانی تھی، میں آپ لے آتا، یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ ہم نے کہا اب تو کولڈ ڈرنک آگئی، ویسے پردیس میں مل بانٹ کر ہی کام ہوتا ہے، تم غصہ مت کرو، سالن نکالو پتہ تو چلے تم کتنے اچھے کک ہو۔ گلزار کا غصہ ہوا ہو گیا، معذرت کرتے ہوئے سالن نکالا، گرما گرم مصری روٹی کے ساتھ چکن کے سالن نے بھوک چمکا دی تھی ہم نے سیر ہو کر کھایا۔ ہم نے سالن کی تعریف کی تو گلزار کے چہرے پر رونق آگئی، بولا بھائی آپ کو کبھی کڑھائی گوشت کھلاو¿ں گا، انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔ اتنے میں ایک عربی آگیا جس کا فرج خراب ہو گیا تھا، گلزار اس کی گاڑی میں بیٹھ کر فرج دیکھنے اس کے گھر چل دیا، ہم نے کہا بھی کھانا تو پورا کھا کر جاو¿ لیکن وہ رکا نہیں ،بولا آپ آرام سے کھائیں، ان عربیوں کو انتظار نہیں کروا سکتے میں فوراً اس کے ساتھ نہ گیا تویہ ناراض ہو جائے گا۔ گلزار جاتے ہوئے دوکان کا شٹر گرا گیا تھا اور ہم کو ہدایت کر گیا تھا کہ اسے دیر ہوجائے تو ہم شٹر کو تالا لگا کر چلے جائیں چابی وہ ساتھ لے جا رہا ہے۔ ہم نے کونسا کہیں جانا تھا اس لیے وہیں بیٹھے رہے، دوکان میں ایک پرانا ڈائجسٹ نظر آگیا سو وہ اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭