لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
شیئر کریں
(رپورٹ: باسط علی) جرأت انوسٹی گیشن سیل کی جانب سے گزشتہ ماہ عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی ، اس کے سابق باس کلب حسن رضوی اور چھاپے میں پکڑی گئی جعلی ادویات کی فروخت میں ان کے معاون اور کچھی گلی کے ڈان غلام ہاشم نورانی کے کالے کرتوں کا پردہ چاک کرنے کاسلسلہ شروع کیا گیا۔ جعلی ادویات کی روک تھام کے لیے رکھے گئے سرکاری ملازم عدنان رضوی اوردوا فروش غلام ہاشم نورانی کے گٹھ جوڑ پر جب محکمۂ صحت کے کچھ باضمیر افراد نے انگلیاں اٹھائیں ، تو اپنی کارکردگی دکھانے کے شوقین بریف کیس کھلاڑی نے یکم فروری سے پورے سندھ میں بلا لائسنس اور جعلی اودیات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹورز کے خلاف ایک مہم چلانے کا آغاز کیا۔
عدنان رضوی کی جعلی ادویات کے خلاف جعلی مہم اُس کے گلے کا پھندا بن گئی
بریف کیس کھلاڑی نے 13ڈرگ انسپکٹرز کی نوکریاں داؤ پر لگادیں، اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈرگ ایکٹ اور حکومتی قوانین کی بدترین خلاف ورزی کا مرتکب
25ڈرگ انسپکٹرز میں سے 13کے پاس شق F2Jکے تحت سرکاری اختیارات نہ ہونے کے باعث اُنہیں چھاپے مارنے اور میڈیکل اسٹورز سیل کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں
ادارے نے عدنان رضوی کی اس مہم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی شفافیت پر سوال اٹھایا تھا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق جعلی لائسنس رکھنے ، غیر معیاری اور جعلی ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹورز کے نام پر ہونے والی اس کارروائی کو عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی نے ہمارے خدشات کے عین مطابق مبینہ طور پر کمائی کا دھندا بنا لیا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے کلیہ فارمیسی کے سربراہ ڈاکٹر غلام سرور کی مدد سے پاس آؤ ٹ کرنے والی طالبات کی ڈگریوں کو جعلی لائسنس بنانے میں استعمال کرنے والے بریف کیس کھلاڑی کی توجہ کام پر کم اور اپنی پبلسٹی مہم پر زیادہ ہے ۔ کارکردگی دکھانے اور ٹی وی کیمرے پر آنے کے شوقین بریف کیس کھلاڑی کو اس مہم کے آغاز کی اتنی جلدی تھی کہ اس جلد بازی میں انہوں نے سرکاری قوانین کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ڈرگ کورٹ کے ساتھ کوئی ریکارڈ روم نہ ہونے پر محکمۂ صحت سندھ کو اس کے قریب ہی ریکارڈ روم فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ کیوں کہ ریکارڈ روم نہ ہونے کی وجہ سے اہم ریکارڈ اور لاکھوں روپے مالیت کی ادویات بارش اور دھوپ کی وجہ سے خراب ہوچکی تھی۔ لیکن سات سال کا عرصہ گزر جانے کے باجود ڈرگ کورٹ ریکارڈ روم سے تاحال محروم ہے، ہائی کورٹ کے اس حکم پر نہ تو کلب حسن رضوی اور نہ ہی عدنان رضوی نے عمل درآمد کرایا۔
31؍جنوری 2019کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن نمبر C.D.I./380/419 میں بریف کیس کھلاڑی نے سندھ بھر کے 25ڈرگ انسپکٹرز محمد شعیب انصاری، غلام علی لاکھو، طاہر غفار خانزادہ، خورشید شیخ، ساجد علی میمن، ذاکر حسین سموں، عبدالحفیظ ٹونیو، شہزاد حسین لغاری، مشتاق احمد سومرو، بلال احمد آرائیں، صاحب خان میرانی، دھنی بخش کولاچی، شیخ ساجد، فیصل احمد، شاہد حسین عباسی، سنیل کمار، تحسین الرحمن، نریش کمار، دلاور علی، الطاف حسین بزدار، نفیس الرحمان قریشی، افضل خان، محمد رضوان، شایان اور ظہیر ممتازکو ایک ماہ تک صوبے بھر میں بھرپور کارروائی اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے دفتر جمع کرانے کی ہدایات جاری کیں۔ یہاں تک تو سارے معاملات ٹھیک رہے، لیکن چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی جلد بازی میں اپنے ہی کیے گئے ایک غیر قانونی کام کو فراموش کرگئے۔
جعلی لائسنس رکھنے ، غیر معیاری اور جعلی ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹورز کے نام پر ہونے والی اس کارروائی کو عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی نے ہمارے خدشات کے عین مطابق مبینہ طور پر کمائی کا دھندا بنا لیا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے کلیہ فارمیسی کے سربراہ ڈاکٹر غلام سرور کی مدد سے پاس آؤ ٹ کرنے والی طالبات کی ڈگریوں کو جعلی لائسنس بنانے میں استعمال کرنے والے بریف کیس کھلاڑی کی توجہ کام پر کم اور اپنی پبلسٹی مہم پر زیادہ ہے ۔
بریف کیس کھلاڑی نے پورے سندھ کے 25ڈرگ انسپکٹرز کو جعلی میڈیکل اسٹورز پر چھاپے مارنے کے احکامات تو دے دیے لیکن اپنی عجلت اور دھندے بازی میں یہ بھول گئے کہ ان 25ڈرگ انسپکٹرز میں سے 13ڈرگ انسپکٹرز(فیصل احمد، شیخ ساجد، تحسین الرحمان ، شایان، شاہد حسین، دلاور علی، محمد رضوان، سنیل کمار، ظہیر ممتاز، نفیس الرحمان، نریش کمار، افضل خان اور الطاف حسین)تو ابھی تک تربیتی مراحل میں ہیں۔ ڈرگ ایکٹ 1976کے سیکشن 18کے تحت ان تیرہ ڈرگ انسپکٹرز کے پاس شق F2Jکے اختیارات ہی نہیں ہیں۔ اور مذکورہ شق کے اختیارات کے بغیر ان ڈرگ انسپکٹرز کو چھاپے مارنے اور میڈیکل اسٹورز سیل کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے ۔یوں عدنان رضوی کی حرکتیں خود اس کے اپنے گلے پڑ گئی ہیں۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے 8؍مارچ 2018ء کو ایک پریس ریلیز نمبر PSC-EXAM:(S.S)/2018/136جاری کیا تھا، جس میں14کامیاب امیدواروں فیصل احمد رول نمبر24800، شیخ ساجدرول نمبر24700، تحسین الرحما ن رول نمبر 24553، احدرول نمبر ,24709شایان رول نمبر24521، شاہد حسین رول نمبر24806، دلاور علی رول نمبر24789، محمد رضوان رول نمبر25176، سنیل کماررول نمبر 25196، ظہیر ممتازرول نمبر 25111،نفیس الرحمان رول نمبر24780، نریش کماررول نمبر25195، افضل خان رول نمبر24853 اور الطاف حسین رول نمبر25327)کو گریڈ 17ڈرگ انسپکٹر کی پوسٹ کے لیے موزوں قرار دیا۔ اس پریس ریلیز کی بنیاد پر یکم نومبر2018کو اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری صحت ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ نے ایک نوٹی فکیشن نمبر SO.CI(H)SPSC/DRUG INSP/2018کے ذریعے درج بالا تمام امیدواروں کو تقرر نامے جاری کردیے۔ لیکن اس نوٹیفکیشن میں بریف کیس کھلاڑی کی تجویز پر ایک انوکھی شق بھی ( اب اس شق کو پامال بھی خود عدنان رضوی نے ہی کیا )شامل کردی گئی۔ وہ شق کچھ یوں تھی:گریڈ 17کے ان تمام ڈرگ انسپکٹرز کوچار ماہ کی محکمہ جاتی تربیت کرنی ہوگی ، جس میں سے تین ماہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری اور ایک ماہ کی تربیت چیف ڈرگ انسپکٹر اور ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی زیر نگرانی فیلڈ میں ہوگی۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود ڈرگ انسپکٹراحد ولد عبدالرحمان کا کیرئیر بریف کیس کھلاڑی کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا اور بریف کیس نہ دینے کی وجہ سے سرکاری ملازمت کے لیے منتخب ہوجانے والایہ قابل نوجوان اپنے حق سے دستبردار ہوکر اب ایک نجی کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ عدنا ن رضوی کی جانب سے جعلی لائسنس رکھنے والے میڈیکل اسٹور کے خلاف شروع کی گئی مہم کے نوٹیفکیشن میں اس نوجوان کا نام کہیں شامل نہیں ۔
ہم پہلے بھی اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ چیف ڈرگ انسپکٹر اور ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری ، ایک دوسرے سے مختلف ان دونوں عہدوں پر عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی براجمان ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدنان رضوی کی جانب سے اس تقرر نامے میںیہ شق شامل کرانے کا مقصد نئے آنے والے ڈرگ انسپکٹرز کو دباؤ میں لینا تھا، جب کہ قانونی ماہرین کے مطابق ڈرگ ایکٹ 1976کے تحت چار ماہ کی تربیت دینے کا معاملہ سراسر غیر قانونی ہے۔ اس سارے معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود ایک ڈرگ انسپکٹراحد ولد عبدالرحمان کا کیرئیر بریف کیس کھلاڑی کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا اور بریف کیس نہ دینے کی وجہ سے سرکاری ملازمت کے لیے منتخب ہوجانے والایہ قابل نوجوان اپنے حق سے دستبردار ہوکر اب ایک نجی کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہے( اس کیس کی مزید تفصیلات آئندہ شمارے میں شائع ہوں گی)۔ اس بات کا سب سے بڑاثبوت خود عدنا ن رضوی کی جانب سے جعلی لائسنس رکھنے والے میڈیکل اسٹور کے خلاف شروع کی گئی مہم کا نوٹیفکیشن ہے جس میں اس نوجوان کا نام کہیں شامل نہیں ہے۔
عدنان رضوی کی سرکاری قانون میں ترمیم اور ڈرگ ایکٹ کی خلاف ورزی قابل مواخذہ تو ہے ہی لیکن بریف کیس کھلاڑی کی اس دو نمبر ی نے درج بالا13ڈرگ انسپکٹرز کی نوکریوں کو داؤ پر لگا دیا ہے، کیوں کہ قانون کے تحت صر ف حکومتی اختیار رکھنے والا ڈرگ انسپکٹر ہی کسی میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مارنے یا اسے سیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ عدنان رضوی اس مہم کے ذریعے اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈرگ ایکٹ اور حکومتی قوانین کی بدترین خلاف ورزی تو کرہی چکا ہے لیکن اس مہم کو شروع کرنے کی جلدی میں بریف کیس کھلاڑی نے ہائی کورٹ کے احکامات کی دھجیاں بھی اڑا دیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں سات سال پیچھے جانا پڑے گا۔
ہائی کورٹ سندھ، کراچی کی انسپیکشن ٹیم کے رکن فاروق علی چنا کی جانب سے 5؍ اپریل2012کو چیئر مین ڈرگ کورٹ کو ’انسپیکشن رپورٹ آف ڈرگ کورٹ ‘ کے عنوان سے ایک خط بھیجا گیا۔ اس خط کے ساتھ جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے 25؍فروری 2012 ء کی جانب سے کیے گئے انسپیکشن کی رپورٹ منسلک کی گئی۔ اس رپورٹ میں چیئر مین ڈرگ کورٹ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور کسی دباؤ میں آئے بنا میرٹ کی بنیاد پر جلدفیصلے سنانے کی ہدایت کی گئی۔ اس رپورٹ میں چیئر مین ڈرگ کورٹ کو صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنانے، کیس پراپرٹی کے باقاعدہ اندراج کے لیے پراپرٹی رجسٹر بنانے کے احکامات دیے گئے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ڈرگ کورٹ کے ساتھ کوئی ریکارڈ روم نہ ہونے پر محکمۂ صحت سندھ کو اس کے قریب ہی ریکارڈ روم فراہم کرنے کا حکم بھی دیا ۔ کیوں کہ ریکارڈ روم نہ ہونے کی وجہ سے اہم ریکارڈ اور لاکھوں روپے مالیت کی ادویات بارش اور دھوپ کی وجہ سے خراب ہوچکی تھی۔ لیکن سات سال کا عرصہ گزر جانے کے باجود ڈرگ کورٹ ریکارڈ روم سے محروم ہے، ہائی کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد نہ ہی کلب حسن رضوی نے کروایا اور نہ ہی عدنان رضوی نے اس ضمن میں کوئی پیش رفت کی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ سب جانتے بوجھتے بھی عدنان رضو ی نے پورے سندھ میں ایک وسیع مہم چلانے کا اعلان کیا، جب کہ ضبط کی گئی ادویات کو رکھنے کے لیے کوئی جگہ ہی موجود نہیں ہے۔ عدنا ن رضوی کی اس ہٹ دھرمی سے نہ صرف ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ، بلکہ مہم کی آڑ میں ضبط کی گئی ادویات مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوسکتی ہیں۔ (جاری ہے)