آزادی کی جانب گامزن افغانستان
شیئر کریں
خطے کے ممالک اور افغان عوام کے لیے خوشی اور راحت کا مقام ہے کہ افغانستان میں امارت اسلامیہ کی طویل اور صبر آزما مزاحمت (جس میں یقیناًحزب اسلامی افغانستان کا بھی حصہ ہے) کے نتیجے میں آزادی کی نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔ قابض امریکا اس امر کے لیے آمادہ وبے چین ہے کہ وہ اپنی افواج افغان مومن عوام کی سرزمین سے نکال لے ۔
قطر کے دارلحکومت دوحہ میں 21 تا 26 جنوری 2019 ء ہونے والے مذاکرات کے بعد میرے دماغ میں افغانستان کی تاریخ کے اوراق پلٹنا شروع ہو گئے ۔ جدید افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع افغانستان کی امارت سے بے دخل کر دیے گئے۔ ایک لمبا عرصہ دیار غیر میں ذلت و مشکلات کی زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے ۔ شجاع دُرانی نے تخت کابل کے حصول کے لیے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کر لیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے کئی گُر آزمائے، آخر کار پچیس اپریل 1839 کوشاہ شجاع بر طانوی ہند کے فوجی دستوں کے ساتھ قندہار میں داخل ہو گئے ۔ اور سات اگست کو کابل کے بالا حصار قلعہ میں مقیم ہو گئے ۔گویا کئی سال بعد بیرونی طاقت کی مدد سے سریر آرائے سلطنت ہوئے۔شاہ کٹھ پتلی تھے، اصل حکمران انگریز تھے ۔اس حقیقت کو انگریز وں نے بھی پوشیدہ نہیں رکھا ۔ برطانوی وزیر اعظم لارڈ میلبرن نے کہا تھا کہ در اصل افغانستان کا بادشاہ برطانوی سفیر میکناگٹن ہے۔ شاہ بھی اس عرصہ افغان عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ یہاں تک کہ اس نے کبھی بیرونی افواج کو نکل جانے کا تاثر تک نہیں دیا۔ مختصر وقت میں انگریز مخالف مزاحمت شروع ہوئی جو پہلی اور دوسری انگریز افغان جنگ پر منتج ہوئی ۔ شاہ شجاع بڑی آسانی سے قتل ہوئے ۔ اور انگریز بھی نشان عبرت بن گئے ۔بعد ازاں تیسرا اینگلو افغان معرکہ اگست 1919کے راولپنڈی معاہدے پر اختتام پزیر ہوا ،جہاں برطانوی ہند نے افغانوں کا استقلال تسلیم کر لیا۔
27 اپریل 1978کو سوویت یونین کے جلی و مخفی تعاون سے ہنگامہ و فساد برپا ہوا۔ یہ گروہ الحادی افکار کے ساتھ مسلط ہوا ۔ افغانستان کے اندر نظام تہہ و بالا ہوا۔ چنا ں چہ افغان عوام مقابل کھڑے ہو ئے ۔ دسمبر 1979میں سرخ فوجیں براہ راست افغانستان میں داخل ہوئیں۔اور افغان تاریخ نے نیا موڑ اختیار کر لیا۔پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی ۔ غیور افغانوں نے کمر ہمت کس لی۔ بعض شواہد ایسے بھی سامنے آئے کہ افغان مجاہدین کے خلاف بھارتی عساکر بھی روسیوں کے ہم رکا ب بن گئے تھے ۔ کئی مقاما ت پر ہوائی حملوں میں بھارتی پائلٹوں نے حصہ لیا۔ مجاہدین نے ان دنوں مار گرائے جانے والے ایک طیارے کے سکھ پائلٹ کی لاش تحویل میں لے لی تھی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ڈیسائی نے اس کی مذمت کی تھی۔ البتہ اندرا گاندھی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو انہوں نے اس جارحیت و مداخلت کی عالمی سطح پر حمایت شروع کر دی ۔ جلال آباد ،گردیز اور قندہار میں بھارت کے مانیٹرنگ اسٹیشنز کام کر رہے تھے ۔ڈاکٹر نجیب کے دور میں بھارتی فنکاروں کے وفد نے کابل کا دورہ کیا ۔ واپسی پر
خفیہ اداروں کو بتایا کہ افغان معاشرے میں بھارتی اثر و رسوخ پوری طرح موجود ہے ۔یہاں تک افغان صدر نے اپنی بیٹیوں کے نام بھی ہندوؤں جیسے رکھے ہیں۔ افغان روسیوں کے خلاف جنگ جیت گئے۔ پاکستان کے ارباب اقتدار و اختیار کی وجہ سے البتہ مذاکرات کی میز پر ان کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے ۔انتقال اقتدار کے بغیر روسی افواج نکل گئیں۔ کہ امریکا اور روس چاہتے بھی یہی تھے ۔نتیجتاً طوائف الملوکی کا دور دوراں ہوا۔ در اصل مقصود گلبدین حکمت یار کی جماعت کا راستہ روکنا تھا۔ پشاور اور اسلام آباد جیسے غیر موثر معاہدوں کے ذریعے وقت ضائع کیا گیا۔ مجددی اور ربانی جیسے لوگوں کو حکومت دے کر لا حاصل کوششیں کی گئیں۔ افغان تنظیموں کے مابین مخاصمت اور تصادم کی وجہ خارجی ، سیاسی مداخلت تھی ۔جہاں پاکستان ،سعودی عرب اور ایران کا کردار بھی منفی اور تدبیر سے عاری تھا۔ فہم و فراست سے امریکا بھی بے بہر اہوا ،جس نے آٹھ اکتوبر 2001کو دنیا کے چالیس ممالک کی افواج کے ساتھ مل کر افغانستان پر آگ اور بارود برسانا شروع کر دیا۔ مگر افغانوں نے اس سترہ سالہ قبضے میں ایک دن بھی انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔
واشنگٹن نے کرزئی اور اشرف غنی جیسوں کو تخت کابل پر بٹھانے سے قبل تاریخ نگاہ پر ر کھی ہی نہیں ۔کہ ایسے ہی گماشتوں نے انگریزوں اور روسیوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوششیں کی تھیں۔چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ افغان امریکیوں اور نیٹو افواج کی بمباریوں سے کٹ مر رہے تھے اور یہاں کوئٹہ اور پشاور میں سامراجی گماشتے خیر مقدمی جلسے منعقد کر رہے تھے ۔تاریخ کی حقیقت دیکھئے کہ آج افغانستان اور پاکستان کے سامراج دوستوں کے حصے میں شرمند گی اور دغا کے القابات ہی آئے ہیں۔یہ جنگ بہر حال امریکا اور امارت اسلامیہ کے درمیان تھی ۔ امارت اسلامیہ اگر کابل کی کٹھ پتلیوں سے بات نہیں کرنا چاہتی تو یہ بے جواز نہ تھا۔ امارت اسلامیہ اپنے موقف میں سرخرو ہوئی ہے کہ جو قابض ہے اور جس سے جنگ ہے، بات بھی اُسی سے ہو گی۔افغان حکومت گلبدین حکمت یار سے کیے معاہدے پر بھی اب تک عملدرآمد نہیں کر سکی ہے ۔حکمت یار کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ طالبان ان پر بھروسہ نہیں کرتے ۔حکمت یار نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر طالبان کابل حکومت کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتے تو یہ ان کا حق ہے ۔بہر حال ان چھ روزہ مذاکرات میں اٹھارہ مہینوں میں خارجی افواج کے انخلاء، افغان عبوری حکومت کا قیام، افغانستان کو بین الاقوامی شدت پسندوں (القاعدہ اور داعش) کے گڑھ کے طور پر استعمال سے روکنے جیسے نکات پر اتفاق کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ دیکھا جائے تو امریکا کی چھتری تلے آج کا افغانستان کئی شدت پسندوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔داعش کی سرپرستی کا الزام بھی امریکا پر لگایا جا رہا ہے ۔ بھارت پاکستان کے خلا ف اس سرزمین سے تخریب کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔
ذکر پشتونخوا میپ کے سینیٹر عثمان کا بھی کرتے ہیں کہ جو یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’ مذاکرات امریکا اور پنجاب کے درمیان ہوئے ہیں ۔یہ کہ طالبان کا اختیار پنجاب کے پاس ہے۔اور جو لوگ مذاکرات کرہے ہیں پنجاب کی دوسری شکل ہے‘‘ ۔موصوف نے افغانستان کو آزاد اور جمہوری ملک بھی قرار دیا۔ پشتونخوا میپ کو ا س بابت وضاحت کرنی چاہئے کہ آیا یہ اس جماعت ہی کا موقف ہے یا محض اس سینیٹر کی لن ترانی ہے ۔مولانا محمد خان شیرانی اور اُس کے ہم صفیربھی اب اپنے خیالات و آراء سے رجوع کریں، کہ جو طالبان کی تحریک پر ا شتباہ کے سوالات
اُٹھاتے رہے ہیں۔ مولانا شیرانی تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ جہاں طالب نظر آئے ، ہاتھ پاؤں باندھ کر سمندر میں پھینکا جائے ۔بہر کیف افغانوں نے امریکا کے دانت کھٹے کر دیے، اور افغانستان رفتہ رفتہ اپنے اقتدار اعلیٰ اور قومی و ملی آزادی کی طرف گامزن ہے ۔