فارماسیوٹیکل مافیا بھی منی لانڈرنگ میں ملوث
شیئر کریں
(رپورٹ: باسط علی)پاکستان جیسے ملک میں جہاں آبادی کی اکثریت کو پیٹ بھر کا کھانا نصیب نہیں تو وہیں کچھ پاکستانی ادویہ ساز کمپنیاں ایک طرف خام مال کی آڑ میں منی لانڈرنگ کر رہی ہیں، تو دوسری طرف قیمتوں میں مصنوعی اضافے کا بوجھ غریب عوام پر منتقل کر رہی ہیں۔ اس سارے معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کا یہ مذموم دھندہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے وزارت صحت، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، ریجنل اور چیف ڈرگ انسپیکٹر کی ناک کی نیچے ہورہا ہے، غریب عوام ادویات کو ترس رہے ہیں، لیکن متعلقہ اداروں کے افسران پیسوں کی چمک کے آگے دوا نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والے کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
گیٹز اور ہلٹن نامی کمپنیوں نے قومی خزانے کو 13 ارب روپے کا چونا لگادیا
ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل پاکستان کے چیئرمین سہیل مظفر نے 12اگست 2016ء کو قومی احتساب بیور و کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک رپورٹ بھیجی جس میں Getzاور Hiltonفارما کی جانب سے گزشتہ چار سالوں میں کی گئی اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت پیش کیے گئے۔ جب کہ مفاد عامہ کے لیے فوری کارروائی کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اس کی ایک ایک کاپی وزیر اعظم پاکستان کے سیکریٹری، وزیر اعظم کے چیئر مین برائے انسپیکشن کمیشن، وفاقی وزارت ہیلتھ کے سیکریٹری اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کو بھی بھیجی گئی۔
چین سے آنے والے خام مال کی انوائسز سنگا پو ر سے ظاہر کی گئیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ، کسٹمز اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ملی بھگت سے منی لانڈرنگ کا مکروہ دھندا جاری
جرات انوسٹی گیشن سیل کو موصول ہونے والی اس رپورٹ میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، کسٹمز اور دو فارماسیوٹیکل کمپنیوں ( Getzفارمااور Hiltonفارما ) کی ملی بھگت سے کی گئی 130ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کے انکشافات کیے گئے۔ادویہ ساز کمپنیوں Getzفارمااور Hiltonفارما نے خام مال منگوانے کے لیے انڈر انوائسنگ کرکے قومی خزانے کو ریمٹنیس کی مد میں 130ملین ڈالر کے زرمباد لہ اور اس پر لاگو ہونے والے 35فی صد ٹیکس کے حساب سے قومی خزانے کوساڑھے 4ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ2016میں جب کراچی میں واقع Getzفارمااور Hiltonفارما کی اس میگا کرپشن کی رپورٹ قومی احتساب بیورو کو بھیجی گئی تو قلب حسن رضوی اس وقت اپنے پیش رواور ریجنل ڈرگ انسپیکٹر عدنان رضوی کے ساتھ مل کر ’چھوٹی کمپنیوں اور میڈیکل اسٹورز ‘ سے بریف کیس وصولنے میں مصروف تھے۔
چیف ڈرگ انسپیکٹر سندھ کی حیثیت سے کمپنی مالکان سے مکروہ دھاندلی کی جواب دہی قلب حسن کی ذمے داری تھی، لیکن وہ دانستہ طور پر آنکھوں دیکھی مکھی نگلتے رہے
ڈرگ ریگولیٹری کے طریقہ کار کے مطابق ہر دوا ساز کمپنی متعلقہ چیف ڈرگ انسپیکٹر اور ریجنل ڈرگ انسپیکٹر کو ہر تین ماہ بعد ایک رپورٹ ارسال کرتی ہے، جس میں درآمد کیے گئے ہر موثر جز اور خام مال کی تفصیلات درج ہوتی ہیں، اگر یہ دونوں حضرات آنکھوں سے ’زر پرستی‘ کی عینک اتار کر دیکھتے تو ایک ہی نظر میں سارا معاملہ سمجھ میں آجاتا ۔ انہوں نے کمپنی مالکان سے یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ جی آپ کا خام مال آچینی بندرگاہ سے رہا ہے اور پھرآپ انوائسز سنگا پور کی کیسے ظاہر کر رہے ہیں؟ اگر پہلے دن ہی Getz اور Hilton فارما سے یہ سوال کرلیا جاتا تو کم از کم تھوڑی مقدار میں ہی سہی غریب عوام کو سستی ادویات مل جاتی اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان بھی نہیں پہنچتا۔
چیف ڈرگ انسپیکٹر سندھ کی حیثیت سے کمپنی مالکان سے اس دھاندلی کی جواب دہی کرنا قلب حسن رضوی کی ذمے داری تھی، لیکن وہ نہ صرف دانستہ طور پر آنکھوں دیکھی مکھی نگلتے رہے، بلکہ قومی خزانے کونقصان پہنچانے اور ملک کے غریب عوام کے لیے دوا جیسی بنیادی ضرورت کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کرنے والی ان کمپنیوں کی جانب سے منعقد کی گئی تقریبات میں مہمان کی حیثیت سے شرکت کرکے ان کی ’انسان دوستی‘ کی مدح سرائی بھی کرتے رہے۔ Getz اور Hiltonفارما کی جانب سے کیے جانے والے اس میگا فراڈ کا نتیجہ اس خام مال سے بننے والی ادویات کی قیمتوں میں کئی گُنا اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ Getz اور Hilton فارماکی جانب سے کیے جانے والے پاکستان کی تاریخ کے اتنے بڑے مالیاتی فراڈ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ نیشنل ہیلتھ سروس اینڈ ریگولیشن اور ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، DRAPکے ڈائریکٹر کاسٹنگ اینڈ پرائس نے اس بات کا کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی خام مال اور موثر اجزا کی درآمدات میں ہونے والی کرپشن اور ادویات کی قیمتوں پر اس سے مرتب ہونے والے اثرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ سب سے تعجب خیزبات یہ ہے کہ کرپشن اور مریضوں کے حقوق کے استحصال کے خلاف زیرو ٹالیرینس کے دعوے کرنے والے وزیر صحت اور سیکریٹری صحت ان تمام کمپنیوں کی حمایت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنے بلواسطہ چینلز کی مدد سے خام مال کی قیمیت کو بہت زیادہ بڑھا کر درآمد کرنے کی میگا کرپشن میں ملوث ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں سال 2012 تا 2016 کے عرصے میں پاکستان کسٹمز سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کی مثالیں دی ہیں۔( ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ڈائریکٹر کاسٹنگ اینڈ پرائسنگ اسسٹنٹ اور اسسٹنٹ ڈرگ کنٹرولر کی منظوری سے )، یہ وہ ڈیٹا ہے جو اودیہ ساز کمپنیاں ہر خام مال کی درآمد پر قانونی طور پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس جمع کرانے کی پابند ہیں۔ تو اس بات کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی کرپشن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کی نظروں سے اوجھل رہی ہو کہ یہ، کمپنیاں چین اور انڈیا کے اے پی آئی ( ایکٹو فارماسیوٹیکل انگریڈیئنٹ ) اور خام مال کو سنگا پور اور متحدہ عرب امارات میں موجود اپنے ذاتی یا مجازدفاتر سے درآمد کر رہی ہیں۔ Getzفارما نے اربوں کی منی لانڈرنگ کے لیے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے، پاکستان میں بیٹھ کر سنگاپور میں چلنے والی کمپنی کو کیسے آپریٹ کیا گیا ، یہ تفصیلات آئندہ شمارے میں شائع کی جائیں گی۔