کیاسندھ حکومت اب بھی مشکل میں ہے؟
شیئر کریں
سال 2019 ء کا پہلا ہفتہ اپنے آغاز سے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے ایک بڑی خوشخبری لے کر آیا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کا نام نہ صرف ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا گیا بلکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں پیش کیے گئے مندرجات سے بھی بلاول کے نام کو فوری طور پر حذف کرنے کے احکامات صادر کردیے گئے ۔بلاول بھٹو زرداری جنہیں میڈیا کی جانب سے گزشتہ کئی روز سے جے آئی ٹی رپورٹ کے افشاء ہونے والے انکشافات کی روشنی میں منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زرداری کے ساتھ ایک مرکزی ملزم بنا کر پیش کیا جارہاتھا ،جبکہ تجزیہ کاروں کی باتیں سُن کر گمان یوں ہونے لگا تھا کہ گویا بلاول بھی منی لانڈرنگ کے اِس گھناؤنے دھندے میں پوری طرح نہ صرف ملوث ہیں بلکہ کسی بھی وقت گرفتار ہوسکتے ہیں ۔ منی لانڈرنگ کیس میں بلاول کے نام کی گونج سے سندھ کی سیاسی فضا بھی لرز اُٹھی تھی۔سندھ حکومت کو اپناقیام خطرے میں دکھائی دینے لگا تھا جبکہ تحریک انصاف، سندھ حکومت کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور دھکا دینے کے لیے فواد چودھری کی سربراہی میں اسلام آباد سے کراچی کے لیے رختِ سفر بھی باندھ چکی تھی کہ اچانک چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس کی طاقت سے سندھ حکومت کو تحریک انصاف کے ’’ سیاسی ایڈونچر ازم ‘‘ کی نذر ہونے سے بچالیا۔ گو کہ ابھی تک سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زردار ی اور اُنکے خاندان کے دیگر افراد کو کسی قسم کی رعایت یا استثنیٰ ملتا دکھائی نہیں دیتا لیکن اِن سب کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے یہ ہی بہت بڑی بات ہے کہ اُن کی پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات سے فی الحال الگ کردیاگیا ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے منی لانڈرنگ کیس پر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں مزید تحقیقات کا تمام تر اختیار نیب کے سپرد کیا جاچکا ہے ۔دیکھیں اب نیب جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اپنی تفتیش کے دائرکار کو کتنا زیادہ پھیلاتا ہے یا سمیٹ لیتاہے ۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں پیش کیے گئے شواہد و تفتیش میں کم و بیش یہ تو ثابت ہو ہی گیا ہے کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے اور اس منی لانڈرنگ کو سائنسی انداز میں منظم کرنے میں سب سے اہم کردار اومنی گروپ آف کمپنیز کا ہی ہے لیکن اصل مسئلہ اومنی گروپ اور سندھ کے سیاستدانوں کے درمیان تعلق ثابت کرنے کا ہے ۔اگر یہ تعلق ثابت ہوجاتاہے تو پھر آصف علی زرداری اور ان کے دیگر ساتھیوں کا بچ پانا مشکل کیا،بس ناممکن ہی سمجھیئے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو نئی لائف لائن مل جانے سے سندھ حکومت بھی ایک بڑے سیاسی بحران سے وقتی طور پر ہی سہی لیکن نکل ضرور آئی ہے اوروزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ایک بار پھر سے سندھ کے سیاسی منظر نامے میں متحرک دکھائی دینے لگے ہیں ۔ویسے بھی سید مراد علی شاہ اپنے پیشرو حکمرانوں سے اس حوالے سے ذرا مختلف ثابت ہوئے ہیں کہ وہ ہمیشہ دھیمے مزاج کی سیاست کرتے ہیں۔ اِس طرز سیاست کے باعث اِن کے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ تعلقات اُس نہج تک چلے جانے سے بچ جاتے ہیں جہاں پہنچ کرتعلقات میں بحالی کا اِمکان یکسر معدوم ہوجاتاہے۔ سیاست میں سید مراد علی شاہ کی یہی خوبی انہیں سندھ کے دیگر سیاستدانوں سے ممتاز بھی بناتی ہے ۔صاف نظر آرہا ہے کہ اس وقت سید مراد علی شاہ بطور وزیراعلیٰ سندھ سخت سیاسی دباؤ میں کام کررہے ہیں ۔خاص طور پرمنی لانڈرنگ کیس میں بطور ملزم نام آجانے کے بعد مخالفین کی جانب سے اِن سے مسلسل استعفیٰ کا مطالبہ کرنابلاشبہ ایسا منفرد’’سیاسی دباؤ‘‘ ہے جس کا سامنے کرتے ہوئے انتظامی معاملات کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اتنے نامساعد حالات میں سید مراد علی شاہ نے اب تک بطور وزیراعلیٰ جس کارکردگی کا مظاہر ہ کیاہے اُسے پاکستان پیپلزپارٹی کے نقطہ نظر سے اگر بہترین نہیں تو کم ازکم بہتر ضرور قرار دیا جاسکتاہے کیونکہ سندھ کے موجودہ سیاسی حالات جتنے زیادہ پیپلزپارٹی کے لیے اس بار ناموافق ہوئے ہیں ، ماضی میں ایسے ناموافق حالات میں حکومت کرنے کا چیلنج کبھی بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو درپیش نہیں ہوا۔اہم بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات کی یہ سنگینی کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ شنید یہ ہی ہے کہ سندھ میں سیاسی کشیدگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھے گی خاص طور پر اُس وقت جب نیب منی لانڈرنگ کیس پر اپنی تفتیش مکمل کر کے سپریم کورٹ کے سپرد کردے گا۔
خوش قسمتی سے سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو جو چند ماہ کا مختصر سا واک اوور یا وقفہ حاصل ہوا ہے ، اِسے غنیمت خیال کرتے ہوئے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کو مستقبل میں پیش آنے والے کھٹن حالات سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی متفقہ سیاسی حکمت عملی بُرے وقت کے سرپر آجانے سے پہلے ہی ضرور طے کرلینی چاہئے ،جس سے کم سے کم سیاسی نقصانات کا اندیشہ ہواور پاکستان پیپلزپارٹی بطور ایک سیاسی جماعت منی لانڈرنگ کیس کے اِس خطرناک عفریت کے منہ سے زندہ سلامت بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے ۔سال 2019 ء کا آغاز بھلے ہی سندھ حکومت کے لیے ’’سُکھ کا سیاسی سانس ‘‘ لے کر آیا ہے لیکن اگر درست پیش بندی سے کام نہیں لیا گیا تو یہ سال جاتے جاتے سندھ حکومت کی ’’آخری سانسیں‘‘بھی اپنے ساتھ لے جانے کی پوری صلاحیت رکھتاہے۔بقول قتیل شفائی
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اِس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں