پیپلزپارٹی کا سیاسی افلاس
شیئر کریں
ابھی تو بلاول بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز کیا ہے! مگر یہ کیا ،وہ اپنے انجام کو گلے لگانے کے لیے اتنے اُتاؤلے کیوں ہوگئے؟ الیگزینڈر پوپ نے 1711ء میں ایک نظم’’An Essay on Criticism‘‘ لکھی جس کے ایک جزوِ فقرہ نے انگریزی زبان کو ایک کہاوت دینے میں مدد دی:
’’Fools rush in where angels fear to tread‘‘
(بے وقوف وہاں جاگھستے ہیں جہاں فرشتے بھی قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں)۔
بلاول بھٹو خود کو ایک ایسے ہی انجام سے دوچار کرنے پر بضد ہیں۔ جناب آصف علی زرداری کے پاس کھینچنے کے لیے رسیاں باقی نہیں رہیں۔ اُن کی جانب سے تیز گفتاری دراصل اپنے بچاؤ کا آخری چارۂ کار ہے۔ وہ اس طرح خاموش سمندر کی گہرائیوں میں ایک ہلچل مچانا چاہتے ہیں۔ مگر سمندر میں پھینکے جانے والے کنکر محض دائرے بنا کر گم ہوجاتے ہیں۔ کیا آصف علی زرداری کے تحفظ کی قیمت بلاول اپنے قبل ازوقت سیاسی انجام سے دینا چاہتے ہیں؟اگر نہیں تو یہ کھیل خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کو بہت جلد اپنی حکمت عملی کی بنیادی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔
بلاول بھٹو کو گمراہ کرنا آسان ہے۔ وہ لکھی ہوئی تقریر کو پڑھنا سیاسی شعور کے ہم پلّہ سمجھتے ہیں،پیپلزپارٹی کے سیاسی ورثے کو گویا اپنی سیاسی بصیرت و ذہانت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس بناء پر حریفوں کی ذہانت پر سوال اُٹھا تے ہیں۔ اس سے سیاسی حریفوں کے متعلق تو رائے قائم کرنے میں اتنی مدد نہیں ملتی جتنی خود اُن کی ’’ذہانت‘‘ بے نقاب ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو نے بے نظیر کی گیارہویں برسی کے موقع کو’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ (جس سے مراد عسکری ادارے کے علاوہ اور کچھ نہیں)کے خلاف اپنا غصہ نکالنے کے لیے استعمال کیا۔اُنہوں نے اپنے خطاب میں ’’طاقت کے نشے میں مست نام نہاد ٹھیکیداروں‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اپنے اُس صبر کو کھودیا تھا جو سیاست میں موقع کی تلاش کے لیے ہمیشہ درکار ہوتا ہے۔ اس سے قبل وہ بالواسطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ پر تیر انداز ہوتے تھے،اُنہوں نے اپنے والد کی طرح اینٹ سے اینٹ بجانے کی زباں درازی کو شعار نہ کیا تھا۔ مگر اب وہ اس معاملے میں اپنے والد سے بڑھ کر دکھائی دینے لگے ہیں ۔وہ ایک ساتھ وفاق ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر تاک تاک کر نشانے لگارہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس موقع پر اُنہوں نے’’ پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کے نوجوانوں کو بھی حق بجانب ثابت کرنے کی بالواسطہ کوشش کی جو فوج کے لیے ایک حساس موضوع بن چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے یہ تیور گزشتہ روز کوٹری کے جلسے میں بھی جوں کے توں تھے۔ جس میں براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کے متعلق واضح اشارے دے کر ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت کو نشانے پر لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو نشانے پر لینے کا مقصد ہمیشہ اور واقعتا وفاقی حکومت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے مراد وہی ’’اینٹ سے اینٹ بجانے والا‘‘ ہدف ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو کے لیے یہ کوئی سازگار حکمتِ عملی ہے؟
پی پی چیئرمین کو سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وہ جس پیپلزپارٹی کی قیادت کررہے ہیں وہ ذوالفقار بھٹو تو درکنار بے نظیر بھٹو کی بھی نہیں ہے۔ اب پیپلزپارٹی کے پاس جو بھی کاٹھ کبار ہے وہ سب کا سب اُن کے والد محترم کی پیداوار ہے۔ اس سیاست کی بنیادی قدر جمہوریت یا مزاحمت نہیں بلکہ پیسہ ہے۔ جناب زرداری کا ذہن اس حوالے سے اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ وہ ’’پیسوں ‘‘کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی ’’پیسوں ‘‘سے ہی حل کرنا چاہتے ہیں۔اس بنیادی رویے کے ساتھ تو پولیس کا سامنا نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ سامنے ایک عسکری ادارے کو مخالف بنالیا جائے۔ اس ضمن میں یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ رخصتی دروازے پر کھڑے چیف جسٹس ثاقب نثار کے جے آئی ٹی پر عبوری احکامات سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ یا خود اُن کے اپنے لیے کوئی مستقل راحت کا سامان نہیں رکھتے۔ یہ سیاسی جمع خرچ کے تو کام آسکتے ہیں، مگر کسی مستقل ہدف کے لیے کارآمدنہیں۔ پھر اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نوازشریف نے مٹھائی کھائی اور مسلم لیگ نون نے بانٹی تھی۔ مگر اس کا آخری انجام شریف خاندان کے لیے بھیانک ثابت ہوا۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے دروبام سے نکلنے والی روشنی کی معمولی کرن اُن کے لیے کسی اُجالے کا مستقبل بندوبست نہ کر پائے گی، کہیں یہ انجام کا آغاز نہ ہو۔ اور پیپلزپارٹی بھی اس کتابِ احتساب کے آخری ورق تک آتے آتے نون لیگ کے حال کو نہ پہنچ جائے۔ بلاول بھٹو کی موجودہ سیاست اس دباؤ کے نرغے سے کبھی نہیں نکل سکے گی۔ ایسے میں اُن کے انقلابی خطبے خود اُن کے خلاف جذبات کو ہوا دیں گے۔ سیاست راستے بنانے اور امکانات کو مجسم کرنے کا نام ہے۔ مگر بلاول اِسے شوقِ خطابت پوراکرنے کا کام سمجھ بیٹھے ہیں۔
بلاول بھٹو کا طرزِ سیاست وخطابت پی پی کے مخصوص سیاسی رنگ کا پوری طرح آئینہ دار ہے۔ جس میں اُن کی اپنی غلطی کے ذمہ دار بھی دوسرے ہوتے ہیں۔ یہ رویہ مجموعی طور پر پاکستانی سیاست کا المیہ ہے۔ پاکستانی سیاست کا کل ماجرا یہ ہے کہ یہ احتجاجِ غیر پر چلتی ہے ، کسی کے پیش نظر تعمیرِخویش نہیں۔ تحریکِ انصاف کی غلطیاں سندھ حکومت اپنی برأت کے لیے پیش کرتی ہیں۔ پی پی حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر خود کو پیش کرنے کی کوئی سیاسی روایت نہیں رکھتی۔ چنانچہ بدترین سیاسی ہنگامہ خیزی اور اُتھل پتھل کے اس دور میں بھی پیپلزپارٹی مخالفین کے خلاف گرجنے برسنے سے سیاسی کام چلا رہی ہے۔ اس ضمن میں سندھ کے وزراء اب اس حد تک گفتگو کرنے لگے ہیں کہ وہ وفاقی وزراء کا داخلہ سندھ میں بند کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے اپنا ’’سندھ مشن‘‘ تاحال بند نہیں کیا۔ ایک روز بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری سندھ میں تشریف لارہے ہیں۔ اس سے قبل وہ اپناد ورۂ سندھ منسوخ کرچکے تھے۔ مگر فواد چودھری کا تازہ ورود دراصل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 25؍جنوری کے دورۂ سندھ کی مخصوص ’’تیاری‘‘ کے پیشِ نظر ہے۔ یہ ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن سرگرمی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کو گرم بیانات سے زیادہ نرم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو نے سندھ کابینہ کا غیر رسمی جائزہ اجلاس بلانے میں نہایت تاخیر کردی۔ یہ پوری کابینہ اُن کی مرضی سے تشکیل دی گئی تھی۔ مکیش کمار چاؤلہ اور امتیاز شیخ یہ دو نام ہی ایسے تھے جو صوبائی کابینہ میں جناب آصف علی زرداری کی سفارش پر شامل کیے جاسکے تھے۔ آصف علی زرداری نے صوبائی حکومت کی تشکیل میں وزیراعلیٰ سندھ سمیت کسی بھی معاملے میں زیادہ عمل دخل نہیں دیا تھا۔ تب باپ بیٹے میں اختلاف کی خبریں بھی اندرونی حلقوں میں گردش کرتی رہیں۔ اگرآصف علی زرداری صوبائی حکومت کی تشکیل میں حصہ لے سکتے تو وزیر اعلیٰ سندھ کے طور پر اُن کا انتخاب ہرگز ہرگز مراد علی شاہ نہ ہوتے۔مگر صوبائی کابینہ کے غیر رسمی اجلاس میں بلاول بھٹو اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ وہ ایک ایسے سیاسی طوفان میں یہ اجلاس برپا کررہے تھے جب وزراء تک کی سیاسی وفاداریاں مشکوک کی جاچکی ہیں۔ یہ بات بالائے فہم ہے کہ اُنہیں سب سے زیادہ غصہ محکمہ ٹرانسپورٹ پر کیوں آیا؟ اُنہوں نے خاص طور پر یہ کہنا کیوں ضروری سمجھا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ گزشتہ دس برسوں میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا۔ کیا اس طرح وہ پچھلے دور میں وزیرٹرانسپورٹ رہنے والے ناصر حسین شاہ کو ہدف بنا رہے تھے جن کی وفاداری پر گزشتہ دنوں سب سے زیادہ شک کیا گیا۔ تب بھی ناصر شاہ کو چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک خصوصی اجلاس میں بلا کر سخت سرزنش کی تھی۔بلاول بھٹو اس طرح اپنا کنٹرول اپنے ہاتھوں کمزور کرتے جائیں گے۔ ایک بار پھر یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ذوالفقار بھٹو یا بے نظیر بھٹو نہیں، جناب زرداری کی پیپلزپارٹی کی قیادت کررہے ہیں۔