میانوالی کا خانوادہِ باقر نجفی
شیئر کریں
تحریک پاکستان کا دبستان جہاں حرُیتِ فکر اور عملِ پیہم کی اُجلی داستانوں کا عنوانِ جَلی ہے وہاں سَچی ، سُچی اور مخلص قیادت کے رخشندہ کارناموں سے تابناک بھی ہے۔ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے سنگم پر واقع ضلع میانوالی کے حالات بھی نئی کروٹ لیتے ہیں ۔ ثمرہ ٗ آزادی کے طور پر بھارت کے مختلف شہروں سے آنے والی کئی نابغہ رُوزگار ہستیوں نے یہاں پڑاؤ ڈالا ۔ اس شہر جمال کی گردِ بیاباں ، یہاں کے صحراؤں کی کھری چاندی جیسی ریت، تھل کی ریشم مٹی ، دریائے سندھ کی مست خرام روانی اور نمل کی نتھری پیاری ، سجل ، نم دار کم رفتار زندگی، گرد بادوں اور طوفانوں کے جھونکوں نے ہجرت کرکے آنے والوں کو سینے سے لگایا ۔ اس خلوص میں ایک تو علاقائی روایات کا رس گھُلا ہوا تھا دوسرے تقسیم ہند کے نتیجے میں یہاں سے انڈیا کی سرحدیں عبور کرجانے والی اہم اور نادر شخصیات کی جُدائی کے فراق کی کسک بھی شامل تھی۔ایک عرصہ تک دونوں طرف ہجرت کرنے والے دُکھ بگولے اُوڑھے رہے اور جلتے ہوئے سانس کاتتے رہے ۔
میانوالی کے لوگوں نے تلوک چند محروم ، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، ہرچرن چاولہ اور رام لعل جیسے قیمتی لوگوں کے جانے سے جو فراق کی تنہائیاں حاصل کی تھیں انہیں وصل کی راحتوں میں بدلنے میں اُن زعماء نے بھر پور کردار ادا کیا جو علم و ادب سے گہری دلبستگی کے شاہکار تھے اور آزادی کی نعمت کے طور پر میانوالی کا مقدر بنے ۔ جب سرابوں سے موجِ رواں اُبھری تو خُشک صحرا کے ورق پر دریا ؤں کا وجود در آیا۔ علاقے کے تعلیمی شُعبے کے لیے ان کی اس خطے میں آمد ایسی تھی کہ جیسے کسی نے تپتے پتھر کی سلوں پر کوئی چشمہ رکھ دیا ہو۔ کڑی دھوپ کے آنگن کو گویا سائبان میسر آ گئے تھے ۔ بعد میں یہاں کی قبائلی طرزِ معاشرت میں جذب نہ ہوسکنے والی بہت سی ہستیاں اور خاندان ملک کے دوسرے علاقوں کی جانب خاص کراُس وقت کے عروس البلاد کراچی کو ہجرت کر گئے۔ جو ’’چراغِ سحری ‘‘ بن کر یہاں رہے ۔اُن روشن ناموں میں علامہ باقر نجفی ، مرزا یوسف حُسین یوسفی اور پروفیسر سید محمد عالم مرحوم بہت نمایاں ہیں ۔ پروفیسر انتصار مہدی رضوی مرحوم بھی اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک یہاں رہے ۔ پروفیسر سید عالم مرحوم کے گھرانے کا علمی فیض کمانڈر سید ندیم عالم اور قابل احترام محترمہ سیدہ منزہ عالم کے ذریعے سے آج بھی جاری و ساری ہے۔
علامہ باقر نجفی نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے چمن کو بھی آباد کیا ۔ وہ میانوالی جیسے درماندہ علاقے میں مسالمہ کی روایت کے بانی ہیں ۔ سید نصیر شاہ مرحوم کا کہنا ہے کہ ’’ 1949 ء میں پہلی محفل مسالمہ علامہ باقر نجفی کے گھر منعقد ہوئی تھی ۔ ‘‘ پھر یہ محفل مسالمہ ہر سال ایک روایت کے طور پر منعقد ہونے لگی ۔ بہت بعد کے عرصہ تک اس میں صرف اُردو شعراء شریک ہوا کرتے تھے ۔کیونکہ مقامی زبان کے شعراء کا اس جانب رُجحان نہ ہونے کے برابر تھا ۔ مقامی زبان میں شعر کہنے والوں میں ان دنوں اکبر چھدروی اور بھریم غریب ، خان محمد پکے کراڑ والے ، پتھا کامری اور سردار خان یارو خیل کے نا م ملتے ہیں یہ سب قیام پاکستان سے پہلے آزادی کی تحریک میں اپنی شاعری کو بروئے کار لائے ۔ آزادی کی تحریک کے دوران ایک شاعر ’’ رام سنگھ سنگھی ‘‘ کا سُراغ بھی ملتا ہے ۔ان میں سے بعض کی شاعری جنگ عظیم میں جنگ کا ایندھن بننے والے میانوالی کے جوانوں کا مرثیہ رہی ہے۔ اکبر چھدروی کی حُریت پسندانہ شاعری پر انگریز ڈپٹی کمشنر نے ان کی زبان بندی کر دی تھی لیکن بعد میں دو روپئے ماہوار وظیفہ مقرر ہونے پر وہ رومانوی شاعری کی جانب راغب ہو گیا تھا ۔البتہ تلوک چند محروم نے ’’حمد ‘‘ ۔ ’’سیرت نبوی کی ایک مثال ‘‘ ۔ ’’شہادت کربلا ‘‘ ۔ اور ’’ اطاعتِ حق ‘‘ جیسی شُہرہ آفاق نظمیں تحریر کی تھیں ۔ لیکن وہ اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد راولپنڈی میں قیام کرنے کے بعد بھارت ہجرت کر گئے تھے ۔
میانوالی شہر میں علامہ باقر نجفی کی قیادت میں ہی عاشورہ محرم کے جلوس نکلنے شروع ہوئے ۔ جن کی قیادت اور پیشوائی آج بھی ان ہی کے خانوادے کے پاس ہے۔ علامہ باقر نجفی نے ضلع میں اتحاد بین المسلین کو قائم رکھنے کے لیئے تابندہ روایات کی بنیاد ڈالی ۔ ان کے بعد ان تمام ذمہ داریوں کو ان کے بیٹے علی حضور نجفی ایڈوکیٹ نبھاتے رہے ۔ علی حضور نجفی سپریم کورٹ آف پاکستان کے اعلیٰ پائے کے وکیل تھے۔ قانونی اُمور پر اپنی گرفت کی وجہ خاطر خواہ شہرت کے حامل تھے ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت کروانے میں کامیاب ہوجانے والی وکلاء ٹیم کا حصہ تھے ۔ عاشورہ محرم کے روز دل کا دورہ پڑنے سے اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوئے تو خاندانی روایات کے تسلسل کی تمام تر ذمہ داریاں اُن کے جواں سال صاحبزادے علی باقر نجفی ایڈوکیٹ کے سُپرد ہوئیں، انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کی روایات کو نبھایا ۔ بعد ازاں انہیں عدالتِ عالیہ لاہور میں منصف کے منصب پر تعینات کر دیا گیا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے عدالت عالیہ کے جج کی حیثیت سے نہ صرف اپنے خاندان کی نیک نامی قائم رکھی بلکہ ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن ‘‘ کی رپورٹ کی بدولت دنیا بھر میں جانے گئے ۔ جسٹس علی باقر نجفی ہر سال میانوالی میں ’’ قلم برائے امن ‘‘ کے زیر اہتمام محفل مسالمہ میں شریک ہوتے ہیں بلکہ اس مرتبہ انہوں نے اپنے ہاں میلاد النبی ﷺ کی تقریب کی بنا بھی ڈالی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے علاقے میانوالی کے لیے تعلیمی میدان میں کچھ کر گزرنے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں ۔
اپنے اسلاف کا ذکر کرتے وقت ان کی آنکھوں میں بلا کی چمک پیدا ہو جاتی ہے ۔تحریک پاکستان کے دنوں کا ذکرجب ان کی زباں سے رواں ہوتا ہے توبانیانِ پاکستان سے ان کی والہانہ وارفتگی اور وابستگی کی جانفزا رعنائی ماحول کو یکلخت گلزار بنا دیتی ہے۔مسلمانوں کی قربانیوں کے تذکرے زیست کی نیم باز پلکوں پر ستارے چُننے لگتے ہیں۔تحریک پاکستان کے دبستان کی ورق گردانی کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا فطرت نے ان کے جملوں کی تہوں میں سلگتے ہوئے شرارے اور مہکتے ہوئے انگارے رکھ دیے ہوں۔ان کی باتوں سے حب الوطنی کی سر خ گلابوں جیسی آگ کی حدت محسوس ہوتی ہے۔ سرشار اور شرابور جذبوں کی خوشبو مہک اٹھتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ وہ میانوالی کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرح علم و تعلم کا گہوارہ بنانے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ دعا ہے کہ پروردگارِ علم و عالم ان فرزندانِ میانوالی کی رسیلی آنکھوں کے سرمدی خوابوں کو حسین تعبیر سے ہمکنار فرمائے ۔