سفر یاد۔۔۔قسط10
شیئر کریں
شاہداے خان
جنادریہ کیمپ میں ہمیں ایک کنٹینر میں کیبن الاٹ کردیا گیا۔ کیبن میں دو افراد کے رہنے کی جگہ تھی، کسی کسی کیبن میں بیڈ پر بیڈ لگا کر چار لوگوں کے لیے جگہ بھی بنا دی گئی تھی۔ ہمارے کیبن میں فی الحال ابھی کوئی اور نہیں تھا اس لیے ذرا سکون محسوس ہوا۔ سامان کیبن میں رکھ کر ہم نے کیمپ کا چکر لگایا، لوگ کام سے واپس آچکے تھے، کوئی نہا رہا تھا تو کوئی کچن میں کھانابنانے میں مصروف تھا۔ اکثریت بنگلا دیشی اور بھارتی باشندوں کی تھی جبکہ کچھ مصر،فلپائن اور سری لنکا کے باشندے بھی نظر آئے۔ مصریوں کے لیے رہائش کا عمدہ انتظام تھا۔ اس کے بعد فلپائنی لوگوں کے لیے بھی اچھی رہائش مہیا کی گئی تھی، باقی سب ہما شما کنٹینرز کے کیبنوں میں رکھے گئے تھے۔ کیمپ میں کوئی پاکستانی تھا نہیں، ویسے بھی نہ ہم نے کسی کو لفٹ کرائی نہ ہی کسی نے ہم سے سلام دعا لینے کی کوشش کی۔ ایسے ہی ادھر ا±دھر گھومنے کے بعد کیمپ سے باہر نکل آئے۔ سوچا سڑک سڑک چلتے ہیں کوئی کیفے ٹیریا یا ہوٹل مل گیا تو رات کاکھانا کھا لیں گے۔ سامنے تو لق و دق میدان تھا اس لیے کیمپ سے نکل کردائیں جانب چلنا شروع کردیا۔ کافی دور جانے کے بعد ایک چھوٹا سا کیفے ٹیریانظر آیا تو دل کو کچھ قرار آیا کہ پیٹ پوجا کا انتظام ہوگیا، کیفے ٹیریا میں کھانا دستیاب نہیں تھا اس لیے چائے اور سینڈوچ سے کام چلایا یہ اور بات کہ سینڈوچ ٹھنڈے اور باسی تھے۔ اجنبی دیس میں گھر کی قدریاد آتی ہے جہاں ماں بہن یا بیوی گرما گرم روٹیاں بنا تی ہے اور ہم کھاتے ہوئے نخرے دکھاتے ہیں۔ دیار غیر میں تو گھرکا کھانا قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے جن لوگوں نے خلیجی ملکوں میں فیملیزرکھی ہوئی ہیں اکثر ا ن کو بھی بیگم کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹی دستیاب نہیں ہوتی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ خواتین شدید گرمی کی وجہ سے باورچی خانے کا رخ کم ہی کرتی ہیں وہ صبح صبح سالن بنا لیں یہی بہت ہے ورنہ دوپہر اور رات میں روٹیاں بنانا ان کے بس کی بات نہیں۔ جو لوگ مجرد(تنہا)رہتے ہیں ان کے لیے توسالن بنانا بھی مشکل ہوتا ہے اس لیے ہوٹل ہی ان کے کھانے پینے کا سہارہ بنتے ہیں۔ ویسے کچھ لوگ ٹائم پاس اور اپنی صحت کے خیال سے سالن پکانا شروع کردیتے ہیں لیکن روٹی کے لیے وہ بھی کسی ہوٹل یا بھٹی کے محتاج رہتے ہیں۔ ویسے تو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں پکی پکائی روٹی بھی مل جاتی ہے لیکن اس میں وہ تازہ روٹی کی خوشبو ہوتی ہے نہ ویسا ذائقہ۔ ارے ہاں روٹی کو یہاں خ±بز کہتے ہیں جس کی جمع خبوس ہے۔ یہاں مصریوں اور افغانیوں کی بھٹیاں بھی رہائشی علاقوں میں اکثر جگہوں پر لگی ہوتی ہیں جہاں سے تازہ روٹی دستیاب ہوجاتی ہے، مصریوں کی بھٹی میں پکی روٹی کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے ، یہ ہماری روٹی سے قدرے چھوٹی اور پھولی ہوئی ہوتی ہے، اس روٹی کو خب±ز کہتے ہیں ، افغانی بھٹی کی روٹی کو تمیس کہا جاتاہے یہ ہماری تندوری روٹی کی طرح ہی ہوتی ہے لیکن ہماری روٹی سے کافی بڑی ہوتی ہے۔
ہم کچھ دیر یونہی بلا مقصد کیفے ٹیریا میں بیٹھے رہے، کیفے ٹیریا والا کیرالہ کا تھا، کیرالہ بھارت کی جنوبی ریاست ہے جس کی زبان تہذیب و ثقافت سب شمال والوں سے الگ ہے، انہیں نہ اردو آتی ہے نہ ہی یہ ہندی جانتے ہیں، اس لیے اس کیفے ٹیریا والے سے بات چیت کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اتنے میں ایک نوجوان عرب لڑکا کیفے ٹیریا میں داخل ہوا، وہ اپنا روایتی لباس پہنے ہوا تھا، لمبی سی ٹخنوں کو چھوتی سفید قمیض جس کے چاک سلے ہوئے ہوتے ہیں اور سر پر رومال جس کو سیاہ موٹی ڈور سے باندھا گیا ہوتا ہے۔ اس لباس کوجبہ کہتے ہیں جبکہ سر کے رومال کو شماغ کہا جاتا ہے اور اس رومال کو جس موٹی سیاہ ڈوری سے باندھا جاتا ہے اس کو غترہ کہتے ہیں۔ یعنی وہ لڑکا اصلی تے وڈا عربی تھا، ہم جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھے۔ چائے لیکر وہ نوجوان سیدھا ہماری طرف آیا اور عربی میں کچھ کہنے لگا۔ سلام تک تو ہماری سمجھ میں آیا جس کے جواب میں ہم نے تجوید کے ساتھ وعلیکم سلام کہا۔ باقی کچھ سمجھ میں آتا تو ہم کچھ کہتے سنتے۔ نوجوان عربی نے دوبارہ کچھ کہا جس کے جواب میں ہم نے انگریزی میں کہا کہ بھائی ہمیں عربی نہیں آتی اگر تم کو انگریزی آتی ہے تو بات ہو سکتی ہے۔ اب اس عربی نوجوان نے گلابی انگریزی میں کہا کہ وہ ہمیں س±وری یعنی شام کا باشندہ سمجھا تھا۔ ہم نے بتایا ہم پاکستانی ہیں تو اس نے بات چیت مزیدآگے نہیں بڑھائی، چائے اٹھائی اور کیفے ٹیریا سے باہر نکل گیا۔ ہم بھی کیفے ٹیریا سے اٹھے اور اپنے کیمپ کی راہ لی۔ اپنے کیبن میں پہنچ کر اے سی چلایا اور کمبل تان کر سونے کے لیے لیٹ گئے، کرنے کو کچھ تھا نہیں ،نہ ٹی وی تھا نہ ریڈیو، اس لیے جلدی سونے میں ہی عافیت نظر آئی۔ صبح جنادریہ کالج بھی جانا تھا ڈیوٹی کا پہلا دن تھا اور وہاں پاکستانی بھائی یعنی گلال صاحب سے بھی ملنا تھا۔ یہ گلال بھی کوئی نام ہے ،بس یہی سوچتے ہوئے آنکھ لگ گئی۔۔۔۔ جاری ہے۔