قرض ادائیگی کے لیے ڈالرزدرکارہیں چھاپ نہیں سکتا ،کشکول لیکر گھوم رہاہوں،اسد عمر
شیئر کریں
وفاقی وزیرخزانہ اسدعمر نے کہا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی ڈالرزدرکار ہوتے ہیں، ڈالر نہیں چھاپ سکتے، اس کے لیے آپ بار بار کشکول لے کر دنیا کے سامنے پھرتے ہیں اور میں بھی وہی کر رہا ہوں کشکول لے کر پھر رہا ہوں ،اوگرا،نیپرا گیس اور بجلی کے نرخ کا تعین کرتے ہیں، اگر گیس کی قیمتیں نہ بڑھائی جاتیں تو گیس کی کئی کمپنیاں بند ہوجاتیں۔
گیس خسارہ 154ارب روپے ہے بیل اؤوٹ پیکج ناگزیر تھا،اسحاق ڈار نے حکومت میں آتے ہی ایک فیصد جی ایس ٹی بڑھایا ہم نے ایسا نہیں کیا،عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کیلیے رقم موجود نہیں، برآمدات کم درآمدات زیادہ ہیں،ایک سے ڈیڑھ سال مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا، لیکن اگر ایک بار ملکی معیشت بہتر ہوگئی تو پھر پاکستان پٹری پر آجائے گا ،پانچ سال بعد صحافی پوچھیں گے اتنی بہترمعیشت کس طرح ممکن ہوئی ،قوم سے سچ بولیں گے چاہے حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے،ہر ماہ 2ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے،آئی ایم ایف پروگرام میں نہ گئے تومشکلات بڑھیں گی، پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے اداروں کی نجکاری بحران کے خاتمے تک ممکن نہیں، پچاس لاکھ گھروں کے منصوبہ پر حکومت کی معمولی رقم خرچ ہو گی، زیادہ ترپرائیویٹ انویسٹمنٹ ہوگی ، پاکستان تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں ۔نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی مقبولیت عام انتخابات کے مقابلے میں نہ بڑھی ہے اور نہ ہی کم ہوئی ہے 14اکتوبراور25جولائی کے نتائج کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں۔شہبازشریف کو بھی ضمنی انتخابات میں شکست ہوچکی ہے ۔ماضی میں ضمنی انتخابات میں حکومتیں سرکاری مشینری استعمال کرتی تھیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا ۔ عمران خان کا کوئی نعم البدل نہیں جہاں عمران خا ن جیتے ہیں وہاں پارٹی کے کسی اور رہنما کا کامیاب ہونا آسان نہیں تھا، اسی لیے بنوں کی نشست پرکامیابی نہیں مل سکی۔
عمران خان نے تمام مشکل سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا ۔پانچ سال قبل صورتحال مختلف تھی، لیگی حکومت کی خراب کارکردگی نے موجودہ صورتحال کو جنم دیا۔نیپراکے مطابق بجلی کا خسارہ 453ارب کا ہے ۔ جب ن لیگ کی حکومت آئی ایم ایف پروگرام میں گئی تب بھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا تھا ۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ڈالر کی قیمت 128روپے تھی ،2013میں اسحاق ڈار کا آئی ایم ایف کے پاس جانے میں کوئی قصور نہیں تھا،بلکہ پیپلزپارٹی اس کی اصل وجہ تھی بالکل اسی طرح 2018میں تحریک انصاف کاورلڈبینک کے پاس جانے میں کوئی قصور نہیں ۔الیکشن سے قبل کبھی نہیں کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہئے ، مئی 2017میں 53ہزار پر انڈیکس تھا، جبکہ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی پھر چھ ماہ بعد وہی انڈیکس 38ہزار تک گر چکا تھا، جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت میں انڈیکس میں 5ہزار کا ڈراپ آیا ہے ۔
ہماری دس فیصد،انڈیا کی ساڑھے دس فیصداورچین کی 13فیصد ما رکیٹ گری ہے ۔یہ گلوبل سیل اپ کا حصہ ہے ۔پاکستان کو ہر ماہ 2ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے ،آصف زرداری کی حکومت میں ہر سال ڈھائی ارب کا خسارہ ہورہا تھا، جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں یہ خسارہ 2ارب ڈالر ماہانہ تک بڑھ گیا۔اگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تو مستقبل میں مزید مشکلات سے گزرنا ہوگا ۔نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافے کی تجویز دی تھی، لیکن اسے صرف 10فیصد تک محدود رکھا گیا ہے ۔ن لیگ نے پچھلے بجٹ میں قوم کو بتا یا تھا کہ خسارہ 4.1فیصد ہوگا لیکن یہ خسارہ سال کے اختتام تک 6.6فیصد تک جاپہنچا ۔2.5فیصدرقم ایک ہزار ارب بنتی ہے ،قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی ڈالرزدرکار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے ۔
پاکستان میں سرمایہ کاری اوربرآمدات بڑھائے بغیر ملک کوقرضوں سے نکالناممکن نہیں ۔اگر دس ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ رک جائے اور پانچ سے دس ارب ڈالر کی برآمدات بڑھ جائیں تو ملک پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہوجائیگا۔آئی ایم ایف سے قرض لینے کے باعث دس لاکھ افرادبے روزگار ہوتے ہیں پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے اداروں کی نجکاری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کا بحران ختم نہ ہو،نجکاری سے بے روزگاری بڑھے گی جس سے معیشت کا پہیہ مزید جام ہوجائیگا ۔ان اداروں میں صرف گورننس کا مسئلہ ہے اگر انتظام کاری ٹھیک ہوجائے تو سرکاری ادارے منافع بخش ہوسکتے ہیں۔