سفر یاد۔۔۔۔۔قسط 9
شیئر کریں
شاہد اے خان
احمد نے آتے ہی ہمیں طلب کیا، کہا اپنا سامان اٹھا لو تمہیں تمہاری ملازمت کی سائٹ پر پہنچانا ہے۔ ہم نے پوچھا ہماری سائٹ کہاں ہے جواب ملا جنادریہ کالج۔ دراصل ہماری کمپنی ایک بڑی مینٹی ننس کمپنی تھی جس کا کام مختلف اداروں میں مرمت اور دیکھ بھا ل کا کام انجام دینا تھا۔ پورے سعودی عرب میں کئی ادارے جن میں کالج، اسپتال، اسٹیڈیم اور سرکاری ادارے شامل تھے ان کی مینٹی ننس کا ٹھیکہ ہماری کمپنی کے پاس تھا۔ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کو کس سائٹ پر بھیجا جائے گا اور وہ سائٹ کس شہر میں ہوگی۔ احمد ہمیں لینے آچکا تھا اور اس نے ہماری سائٹ جنادریہ کالج بتائی تھی۔ ہم نے پوچھا یہ ہے کہاں کس شہر کس علاقے میں ہے یہ کالج ،جس کا جواب احمد نے نہیں دیا۔ اس نے پیچھے آنے کا کہا اور ہم سامان اٹھا کر اس کے پیچھے چل پڑے۔ گروپ کے باقی دوستوں نے گلے لگا کر رخصت کیا، سمیر اور عضام بھی گرمجوشی سے گلے ملے۔ ہمیں معلوم نہیں تھا احمد ہمیں کہاں لے جا رہا تھا۔ گاڑی سڑکوں پر دوڑتی رہی۔ کوئی پونے گھنٹے کے بعد ہم ریاض کے مضافاتی علاقے میں داخل ہو گئے۔ ہماری گاڑی ایک بڑی چاردیواری میں داخل ہوئی جس میں مختلف عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ یہی جنادریہ کالج تھا ہم نے یہیں کام کرنا تھا۔ ایڈمن میں ایک مصری نے استقبال کیا، یہ اس سائٹ کا منیجر تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم کالج انتظامیہ اور کمپنی کے درمیان رابطہ کاری کا کام سرانجام دیں گے۔ اگلے دن سے ڈیوٹی جوائن کرنے کا کہہ کر ہمیں دوبارہ احمد کے حوالے کر دیا گیا۔ اب احمد نے ہماری رہائش گاہ پہنچایا۔ کمپنی کی رہائش گاہ جسے یہاں کیمپ کہا جاتا ہے کالج کے قریب ہی تھی۔ یہ کوئی رہائشی عمارت نہیں تھی بلکہ ایک چار دیواری میں بہت سے کنٹینرز کھڑے تھے۔ ان کنٹینرز میں کمرے بنا دیئے گئے تھے گویا ہم نے کنٹینر میں رہنا تھا۔ شکر یہ تھا کہ کنٹینرز میں اے سی لگے ہوئے تھے ورنہ شدید گرمی میں شاید لوہے کے کنٹینر میں رہنا نا ممکنات میں ہے۔ کیمپ میں آکر یہ بھی پتہ چلا کہ اس سائٹ پر ہم واحد پاکستانی ہیں۔ یعنی کالج میں بھی کوئی پاکستانی کام نہیں کرتا اور نہ ہی کیمپ میں ہمارے علاوہ کوئی پاکستانی موجود ہے۔ ہمیں جس کنٹینر میں جگہ ملی وہاں سری لنکن اور بنگلا دیشی لوگ پہلے سے تھے۔ کنٹینرمیں داخل ہوتے ہی مچھلی کی بو نے استقبال کیا۔ ہم الٹے پیروں واپس باہر آگئے ،ہم نے خود سے کہا یہاں نہ کوئی ہم وطن ہے نہ ہی ہم زبان، ہم یہاں کیسے رہیں گے۔ احمد سے کہا ہمیں واپس کالج پہنچا دے لیکن وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگیا کہ ہمیں کیمپ پہنچاکر اس کا کام ختم ہوگیا ہے۔ ہم کیمپ کے باہر کھڑے سامنے موجود لق و دق میدان کو دیکھ رہے تھے۔ کالج اس میدان کے دوسری طرف تھا، ہم نے خدا کام نام لیا اور پیدل کالج کی جانب چل پڑے۔ سڑک کسی گاڑی کے گزرنے کی آواز سے کچھ لمحوں کے لیے جاگتی تھی اس کے بعد وہی ویرانی سی ویرانی۔
اس ویرانے میں تو ہمیں کوئی جانور یا پرندہ بھی نظر نہیں آیا۔ کہیں کوئی کوا ہی کائیں کائیں کرتا نظرآجاتا، کہتے ہیں کوا انتہائی سخت جان پرندہ ہے سخت سے سخت ترین حالات میں بھی زندہ رہنے کا ہنر جانتا ہے۔ ہم نے سوچا یہاں گرمی کی شدت اور دانا پانی نہ ملنے کی وجہ سے شاید کوے بھی سارے کے سارے کہیں اور کوچ کر گئے ہیں۔ پیدل مارچ کرتے ہم قریب بیس منٹ میں کالج پہنچے دفتر تک پہنچتے پہنچتے حالت خراب ہو چکی تھی پیاس سے برا حال تھا۔ ایڈمن دفتر میں مصری منیجر کے سامنے ہم پھٹ پڑے، ہم وہاں کیمپ میں کیسے رہیں گے وہاں تو کوئی پاکستانی ہی نہیں، ہم کس سے بات کریں گے کس کو دکھ درد میں شریک کریں گے، ہم نے یہ بھی کہا کہ ہم کنٹینر میں بھی نہیں رہ سکتے۔ مصری منیجر نے ہماری بات تحمل سے سنی پھر کہنے لگا اس کالج میں کسی پاکستانی کو رکھنے کی منظوری نہیں ملی تم پہلے پاکستانی ہو جس کو اس کالج کی انتظامیہ نے رکھنے کی منظوری دی ہے، اس لیے تم نے یہاں رہنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ کالج انتظامیہ کا فیصلہ درست ہے۔ منیجر نے یہ بھی بتایا کہ ایک پاکستانی صاحب یہاں کمپنی کے دفتر میں کام کرتے ہیں لیکن کالج انتظامیہ کی جانب سے منظوری نہ ملنے کی وجہ سے کمپنی نے انہیں صرف اپنے کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ ہم نے فوراً پوچھا کون صاحب ہیں ،کہاں ہیں، ان سے کیسے ملاقات ہوسکتی ہے۔ منیجر نے جواب دیا ان کا نام گلا ل ہے آج وہ جا چکے ہیں کل ہم ان سے مل سکتے ہیں۔ گلال یہ کیانام ہوا ،ایسا نام تو کسی پاکستانی کا ہم نے پہلے نہیں سنا۔ خیر ہم گلال صاحب سے ملنے کے تجسس میں لگ گئے اور منیجر دفتر سے نکل گیا۔ ہم کیمپ واپس پہنچ گئے۔ اب ہمیں گلال صاحب سے ملاقات کا انتظار تھا۔۔۔ جاری ہے