میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرنل قذافی اسلام دشمنوں کی سازشوں کاشکا رہوا

کرنل قذافی اسلام دشمنوں کی سازشوں کاشکا رہوا

منتظم
جمعه, ۱۳ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

ایک اخباری خبر کے مطابق لیبیا کے شہر سرت سے داعش بے دخل ،اور وہاں گھر گھر تلاشی جاری ہے۔لیبیا کی سرکاری افواج کی جانب سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو بے دخل کیے جانے کے بعد باقی رہ جانے والے شدت پسندوں کو تلاش کررہی ہے۔شدت پسند مبینہ طور پر سمندر کنارے واقع علاقے الفذالجریہ میں دس سے بھی کم گھروں میں چھپے ہوئے ہیں۔

کافی عرصے کے بعد مرحوم کرنل قذافی کے دور حکومت 40سال حکمرانی والے شہرت یافتہ شمالی افریقہ کے اچھی کوالٹی کا پیٹرول پیدا کرنے والے ملک لیبیا کی بہت مختصر سی خبر پڑھی۔لیبیا کے جس شہر سرت کا خبر میں ذکر ہے۔وہ لیبیاکے سابق عالمی شہرت یافتہ بے تاج وبادشاہ اور لیبیا کے سیاہ وسفید کے مالک کرنل معمر القذافی کا آبائی شہر سرت ہے۔جہاں وہ اس وقت کے چھوٹے سے قصبہ سرت میں پیدا ہوئے تھے ،بعد میں سرت کا یہ شہر کرنل قذافی کے دور حکومت میں ایک ترقی یافہ اور صاف ستھرا شہر بنادیا گیا تھا۔ یہ بات آپ سب کے علم میں بھی ہوگی کہ لیبیا میں شاہ ادریس کی ایک کمزور حکومت تھی یہ ایک طرح سے امریکی سامراج کی کٹھ پتلی حکومت تھی اور سارا کنٹرول اور عمل دخل پس پردہ امریکی حکام بالا کا تھا اور لیبیا کا اچھی کوالٹی کا تیل اور پیٹرول امریکی سرکار بہت ارزاں قیمت پر لیبیاکے بادشاہ شاہ ادریس سنیوسی سے خریدتے تھے۔

امریکا شروع سے ہی پیٹرول پیدا کرنے والے ممالک میں ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان ممالک کی سرپرستی کرتا تھا۔ جب ایران میں شہنشاہ ایران کی آمرانہ بادشاہت کو دور دورہ تھا۔اس وقت بھی امریکا نے ان کو استعمال کیا اور وہ ایشیا کے پولیس مین کہلاتے تھے۔اور ایران میں جمہوری دور نہیں تھا لیکن امریکا کا جہاں سیاسی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔وہ ہر ڈکٹیٹر چاہے وہ بادشاہ ہو یا فوجی حکمران ہو۔ اس کے حق میں بولتا ہے اور وہاںامریکا یہ نہیں کہتا کہ یہاں تو فوجی حکومت ہے یا بادشاہت ہے اور امریکا یہ نہیں کہتا کہ وہ صرف جمہوریت سے وابستہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے کا متمنی ہے۔ امریکا دراصل ہمیشہ سے ہی اپنی دورخی اور دوغلی پالیسی اختیار کرنے میں منفی شہرت کاحامل ہے۔

لیبیا کے سابق بادشاہ شاہ ادریس دراصل امریکا کے کٹھ پتلی سربراہ مملکت تھے۔ جب کرنل قذافی نے جو اس وقت33سال کے فوجی جوان تھے ،انہوں نے چند قریبی فوجی جوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کا تختہ الٹا تھا اس دور میں لیبیا کے عوام بہت زیادہ افلاس اور غریب کا شکار تھے اور وہاں کے عوام میں جہالت کے علاوہ رہائشی اور دیگر مسائل بھی تھے۔ کرنل معمرقذافی نے اس وقت کے مصری رہنما جمال عبدالناصر کے تعاون سے شاہ ادریس کی حکومت کا تختہ الٹا تھا اور یکم ستمبر 1969کو قذافی فوجی انقلاب کامیابی سے لانے میںسرخرو ہوگئے اور لیبیا کے غریب اور مظلومLibyanعوام نے پورے ملک میں اس فوجی انقلاب کا زبردست استقبال کیا اور کرنل قذافی عالمی سیاسی منظرنامہ میں ایک نوجوان انقلابی لیڈر کی حیثیت سے ابھر کرنمودار ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ہی وہ اس وقت پاکستان کے عظیم عوامی لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو کے مداح اور قریبی گہرے دوست بن گئے اوروہ پاکستان سے اورپاکستانی عوام سے بہت محبت کرتے تھے اور ہر آزمائش کی گھڑی میں انہوں نے خلوص ومحبت اور تعاون کا ثبوت دیا۔

امریکا کی دلچسپی لیبیا میں اس لیے زیادہ تھی کہ شمالی افریقہ کے اس عرب ملک میں وافر تعداد میں اچھی کوالٹی کا پیٹرول پایا جاتا ہے۔کرنل قذافی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شروع سے ہی امریکی سامراجیت اور امریکا کے آقا ہونے کے خلاف تھا۔ لیبیا ستمبر1969سے کرنل قذافی کی حکمرانی کے دور میں40سال تک سوشلسٹ مملکت تھا اور امریکا کافی عرصہ سے کرنل معمر قذافی کی جان دشمن تھا۔1986میں امریکا نے انھیں راستے سے ہٹانے کی ایک کوشش بھی کی تھی اوران کی رہائش گاہ پر جنگی جہاز کے ذریعے راکٹ اور میزائل داغ کر حملہ کیا تھا، لیکن قذافی اس وقت اپنی رہائش گاہ میں موجود نہیں تھے اس لیے وہ اس حملے میں محفوظرہے ۔لیکن اس کے باوجود امریکا آخر کار نیٹو کے اتحادی ممالک سے سازباز کرکے قذافی کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل۔قذافی صاحب اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اپنی اسلام دشمنی کی وجہ سے انہیں سامراجی سازش کا شکار کردیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں