جنوبی پنجاب صوبہ کے خواہشمند نئے جذبے کے ساتھ
شیئر کریں
یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے تو ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کے دور میں جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنا تو کب بنے گا؟ پھر یوں ہوا کہ ان کی وزارت عظمیٰ، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی نذر ہوگئی، ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے، پیپلز پارٹی کی حکومت 2013ء میں ختم ہوگئی لیکن جنوبی پنجاب صوبہ نہ بن سکا۔ الیکشن مہم میں صوبے کا نعرہ تو بہت لگایا گیا، لیکن اس نعرے کو پذیرائی نہ مل سکی۔ اگر ملتی تو پیپلز پارٹی کو پورے پنجاب میں قومی اسمبلی کی ایک نشست تو حاصل نہ ہوتی وہ بھی پارٹی سے زیادہ مخدوم احمد محمود کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ اس الیکشن میں کامیابی مسلم لیگ (ن) کو ملی جس نے کبھی جنوبی پنجاب کے لیے الگ صوبے کا نعرہ نہیں لگایا البتہ پنجاب کی حکومت نے گزشتہ دس برسوں میں جنوبی پنجاب کے لیے بجٹ بہت بڑھا دیا ہے۔ دانش ا سکول جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں قائم کیے گئے ہیں۔ مظفر گڑھ میں سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنایا گیا، سڑکوں کا جال بھی پھیلایا گیا ہے، ملتان میں سبسڈائزڈ میٹرو بس چل رہی ہے۔
مخالفین کہتے ہیں کہ یہ بسیں خالی دوڑتی ہیں غالباً ان کی تسلی اسی وقت ہوتی ہے جب مسافر بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیئے گئے ہوں اور چھتوں پر بھی سفر کرنے پر مجبور ہوں، چونکہ میٹرو میں ایسا نہیں اس لیے یہ ہدف ملامت ٹھہری۔ جن بسوں میں دو چار نشستیں خالی ہوں یا کھڑے ہونے کی گنجائش ہو وہ انہیں خالی نظر آتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ملتان میں میٹرو کی ضرورت نہ تھی یہ کرپشن کے لیے بنائی گئی۔ اس سلسلے میں جو اسکینڈل بنایا گیا وہ بیک فائر کرگیا تھا اور چین کی حکومت نے جعل سازی کرنے والی کمپنی کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ اس کے باوجود پروپیگنڈے کا سلسلہ رک نہیں پاتا۔ عام طور پر ہمارا رویہ یہ ہوگیا ہے کہ اگر دانش سکول بنایا جائے تو کہا جاتا ہے پرائمری سکول بننا چاہئے تھا۔ جنرل ہسپتال بنایا جائے تو کہا جاتا ہے دل کا ہسپتال کیوں نہیں بنایا گیا۔ موٹر وے بنائی جائے تو کہا جاتا ہے اس کی ضرورت نہ تھی اس کی بجائے فلاں سڑک بنا دی جاتی۔ غرض حکومت کی ترجیحات اپنی ہیں اور لوگوں کی پسند ناپسند کے پیمانے بھی اپنے ہیں۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا ہم نے بات جنوبی پنجاب کے صوبے کے مطالبے سے شروع کی تھی جس کی پیپلز پارٹی سب سے زیادہ حامی ہے۔ اب الیکشن مہم میں یہ نعرہ شدومد سے لگایا جا رہا ہے، تحریک انصاف بھی صوبے کی حامی ہے، جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر اطلاعات محمد علی درانی بہاولپور کو صوبہ بنانے کے خواہش مند ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بہاولپور شامل ہے یا نہیں اور اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا تو کیا بہاولپور صوبے کا مطالبہ پھر بھی جاری رہے گا اس کی وضاحت محمد علی درانی کے ذمے ہے۔
اب جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا پورے چار سال دس ماہ تک حصہ بنے رہنے والے چند ارکان نے علیحدہ ہوکر ایک صوبہ محاذ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ معترضین کہہ سکتے ہیں کہ اب تک ان کے دل میں صوبے کی محبت کیوں نہیں جاگی تھی لیکن نیک کام جب بھی کرلیا جائے اچھا ہوتا ہے اس لیے اگر طویل عرصے سے بھولے ہوئے یہ راہی جنوبی پنجاب کے راستے پر واپس آگئے ہیں تو ان کا خیرمقدم ہی کیا جانا چاہئے لیکن ایک خدشہ موجود ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت صوبے کے مطالبے سے ہمدردی رکھنے کے باوجود آج تک صوبے کے لیے عملاً کوئی کام نہیں کرسکی اسی طرح یہ محاذ بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا کیونکہ اگر ملک کی ایک بڑی جماعت اس مشکل کام کو نہیں کر پائی تو چند آزاد ارکان کیسے یہ منزل حاصل کر پائیں گے۔ ایسے لگتا ہے کہ سیاسی وجوہ کی بنا پر یہ حضرات پارٹی چھوڑنا چاہتے تھے تاکہ اگلے سیٹ اپ میں کوئی جگہ مل سکے۔ کہا جا رہا ہے کہ 2018ء کے انتخاب کے بعد آزاد ارکان کی اسی طرح لاٹری نکلنے والی ہے جس طرح بلوچستان کے آزاد ارکان کی نکلی تھی، وہاں بھی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کردی اور نواب ثنا اللہ زہری کو ہٹا کر ان کی جگہ مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ جن کے اپنے ارکان پانچ ہیں۔ اس طرح ایک ’’آزاد‘‘ سینیٹر ایوان بالا کا چیئرمین بن گیا۔ غالباً ایسی کرشمہ سازیوں کو دیکھ کر ہی جنوبی پنجاب کے ہمارے چند دوستوں کے دل میں صوبے کی محبت جاگ اٹھی ہے اور انہوں نے ایک محاذ بنالیا ہے، اب دیکھیں قسمت کس طرح یاوری کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے تو اپنے دور حکومت میں قومی اسمبلی سے جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں قرارداد بھی منظور کرالی تھی لیکن صوبہ کیسے بن سکتا تھا کہ اس کے لیے قومی اسمبلی نہیں، صوبے کی اسمبلی کا کردار اہم ہے اور مطلوبہ اکثریت پیپلز پارٹی کے پاس نہ اس وقت تھی اور نہ ہی 2013ء میں مل سکی۔ اب آصف علی زرداری صوبے کی حکومت کے حصول کے لیے پرامید ہیں جو اسی صورت قائم ہوسکتی ہے جب مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو بیک وقت شکست دی جائے۔ ممکن ہے پیپلز پارٹی نے کوئی ایسا زائچہ بنایا ہو جس میں یہ دونوں جماعتیں کوئی وجود نہ رکھتی ہوں۔ اگر ایسا ہوگیا تو بھی جنوبی پنجاب کا صوبہ بننا محض نعروں سے ممکن نہیں۔ اگر ایسا کرنا آسان ہوتا تو بلوچستان میں پشتون صوبہ، خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبہ اور سندھ میں کراچی صوبہ اب تک خواب و خیال سے آگے بڑھ چکا ہوتا۔ ویسے خوشی کی بات ہے کہ الیکشن سے ذرا پہلے صوبے کے نام پر ایک محاذ تو بنا دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں جو سیاستدان شریک ہوئے ہیں ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تھے۔ چونکہ حکومت اس کی تھی اور ان حضرات کی سابق جماعتیں اپنے اقتدار کا دور پورا کرچکی تھیں اس لیے انہوں نے برسر اقتدار جماعت میں شمولیت ضروری سمجھی اب یہ پرندے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش میں ہیں جسے اقتدار ملنے کی امید ہو، رہا صوبے کا معاملہ تو اس کی حیثیت نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ (تجزیہ )