چین مالدیپ دوستی پر بھارت برہم کیوں؟
شیئر کریں
عبدالماجد قریشی
بھارت کی مودی سرکارنے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت خطے کے متعدد ملکوں کو اپنا محتاج بنا رکھا ہے۔ حسینہ واجد کو اپنے ملک میں شخصی آمریت کے لیے مودی کی ضرورت ہے تو افغان حکومت مودی سرکار کی مالی امداد کے خمار میں مبتلا ہے۔نیپال کے عوام نے کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد جمہوری آئین بنایا تو بھارت نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کر کے نیپال کی معاشی ناکابندی کر دی۔ بھوٹان بھی نیپال ہی کی طرح سمندر سے کٹا ہوا ملک ہے اور اپنی معیشت کے لیے بھارت کی طرف دیکھتا ہے۔ سری لنکا اور مالدیپ خطے میں پاکستان کے دوست ہیں لیکن توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والا بھارت ان دونوں ملکوں میں بھی اپنی فوجیں بھیج چکا ہے۔
صرف پاکستان ایسا ملک ہے جس نے خطے میں بھارتی توسیع پسندی کے آگے سر جھکانے سے انکار کر رکھا ہے لیکن مودی سرکار اگر سارک کو مودی لورز کلب بنانے کی کوشش کرے گی تو پھر برصغیر پاک و ہند مسائل کے حل کے اہم ترین فورم سے محروم ہو جائے گا۔
مالدیپ بحرہند میں موجود ایک چھوٹا مسلم ملک ہے۔ مگر اپنے رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا ہونے کے باوجود مالدیپ نے دیگر سارک ممالک کی نسبت حیران کن حد تک نہایت ہی بہادری سے بیرونی مداخلت کا سامنا کیا ہے۔
مالدیپ کا چین سے قریب آنا بیرونی دبائو میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ مگر صدر عبداللہ یامین نے کسی خطرہ کی پروا کیے بغیر بیرونی اسٹیبلشمنٹ پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی صورت مالدیپ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی برداشت نہیں کریں گے۔ صدر یامین اس سے قبل بھی بھارتی درخواست پر سابق صدر نشید کی رہائی کو مسترد کر چکے ہیں۔ صدر یامین سابق صدر نشید کی رہائی کے حوالے سے سوچ رہے تھے، مگر بیرونی دبائو میں اضافہ ہوتا دیکھ کر انہوں نے عدالت کو اپنا کام مکمل کرنے دیا۔ آخرکار سابق صدر نشید دہشت گردی میں ملوث پائے گئے اور ان کو13 سال قید کی سزا ہوئی۔
صدر عبداللہ یامین، جو قاتلانہ حملے میں بال بال بچے، انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ پر یہ واضح کر دیا کہ وہ اندرونی معاملات میں بیرونی دبائو برداشت نہیں کریں گے۔ ان پر قاتلانہ حملہ اْس وقت ہوا، جب وہ اپنی اہلیہ اور نجی اسٹاف کے ساتھ دارالحکومت واپس آرہے تھے۔ ان کی لانچ میں دھماکہ کی وجہ سے33 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ اگرچہ دھماکا کے فوراً بعد بھارتی وزیر خارجہ کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اس حملہ پر تشویش کا اظہار کیا، مگر کچھ مالدیپ کے شہریوں کا خیال ہے کہ اس دھماکے میں ’’را‘‘ ملوث ہے۔
مالدیپ کے آئین میں ترمیم بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ مالدیپ کی پارلیمان نے بھارتی دبائو کے باوجود پچھلے مہینے اپنے آئین میں ترمیم کرکے غیر ملکیوں کو مالدیپ میں زمین خریدنے کی اجازت دے دی۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ چین اس اجازت کا فائدہ اٹھا کر اپنا فوجی بیس بنا سکے گا۔ اکتوبر میں مالدیپ نے اپنے دارالحکومت کا بین الاقوامی ایئرپورٹ چین کے حوالے کر دیا، جو اس سے قبل بھارت کے پاس تھا۔ بھارت کے ساتھ معاہدہ صدر نشید کے ساتھ ہوا تھا مگر ان کے بعد آنے والے صدر محمد وحید نے اس معاہدہ کو ختم کر دیا تھا۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو مالدیپ کی ترقیاتی حکمت عملیوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ چین اکیسویں صدی کی سمندری شاہراہ ریشم کے قیام میں مالدیپ کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں فریقین کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو تیزی سے فروغ حاصل ہوا ہے اور دونوں ملکوں نے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے جامع شراکت داری قائم کی ہے۔
مالدیپ پانیوں میں گھرا جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا سا مسلمان اکثریتی ملک ہے۔ یہ سارک تنظیم کا ایک فعال رکن بھی ہے۔ مالدیپ میں ان دنوں اچانک سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ صدر یامین نے اچانک مالدیپ کے چیف جسٹس عبداللہ سعید کو برطرف کرکے نظر بند کر دیا۔ جس کے بعد امریکا، برطانیہ اور بھارت نے مالدیپ پر چیف جسٹس کی رہائی اور بحالی کے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ چیف جسٹس سابق صدر قیوم محمد نشید کے مقرر کردہ تھے جنہیں بھارت اور امریکا نواز سمجھا جاتا ہے اور 2013 کے انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں۔ موجودہ صدر یامین علاقائی سیاست میں چین اور پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے چیف جسٹس کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے بعد صدر یامین نے اپنے خصوصی نمائندوں کو پاکستان، چین اور سعودی عرب کے دورے پر بھیجا ہے۔ امریکا اور بھارت چیف جسٹس سے کوئی مہم جوئی کروا کر مالدیپ میں طاقت اور حالات کا پانسا پلٹنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے صدر یامین نے انہیں برطرف کر دیا۔ اس سے پہلے سری لنکا میں مہندہ راجا پکاسا کے خلاف ایسے ہی حالات پیدا کرکے انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔
بھارت سری لنکا کے بعد مالدیپ کی مسند اقتدارپراپنا حمایت یافتہ لاناچاہتا ہے۔ بھارت کی ہمسایہ ملکوں میں اپنے بندے اوپر لانے کی یہ مہم جوئی جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں کسی نہ کسی انداز سے جاری ہیں۔ بنگلا دیش میں حسینہ واجد کی صورت میں بھی یہ کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔ ان کی قریب ترین سیاسی حریف خالدہ ضیاء کو نشان عبرت بنا ڈالا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ مداخلت مختلف انداز میں جاری ہے۔ بھارت کی اس مہم جوئی کے ڈانڈے امریکا کے عالمی اور علاقائی عزائم سے جا ملتے ہیں۔ بھارت اس خطے میں امریکا کی سرپرستی میں چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اگر خود کو ہر میدان میں مقابلے کا اہل نہ بھی سمجھے امریکا اس کے غبارے میں ہوا بھر رہا ہے۔
مالدیپ نے بھارت کی جانب سے ‘ملن’ کے نام سے دوستانہ بحری مشق کی دعوت سے کوئی وجہ بتائے بغیر انکار کردیا ہے۔اس مشق میں شرکت کرنے والے ممالک میں آسٹریلیا، ملائیشیا، میانمار، نیوزی لینڈ، عمان، ویت نام، تھائی لینڈ، ، سری لنکا، سنگاپور، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ اصل میں مالدیپ کا حالیہ فیصلہ بھارت کے ساتھ پہلے سے کشیدہ تعلقات کا شاخسانہ ہے جو مالدیپ میں عائد ایمرجنسی کے بعد سنگین صورتحال اختیار کرگئے تھے۔