میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیاشیر کی واپسی ہوگی؟

کیاشیر کی واپسی ہوگی؟

منتظم
بدھ, ۲۸ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

راؤمحمد شاہد اقبال
شیر اپنی فطرت کے حساب سے آدم خور نہیں ہے،عام حالات میںشیر کسی انسان کو دیکھ لے تو کترا کے نکل جاتا ہے لیکن اناڑی شکاری اپنے اناڑی پن کی وجہ سے اکثر اس کو مار نہیں پاتے بلکہ زخمی کر کے چھوڑ دیتے ہیں یہ ہی وہ شیر ہیںجو زخمی ہونے کے بعد آدم خور بن جاتے ہیں یہ بات دنیا کے تمام ماہرین شکاریات جانتے ہیں لیکن افسوس کہ 12 اکتوبر 1998 ؁ء کو ایک شکاری اس بات کو نہیںجانتا تھا اور پھر وہی ہواجو ایسے موقع پراکثر ہوا کرتا ہے کہ شکاری نے شیر کو ہر طرف سے گھیر لیا، اُس کے تمام مددگاروںو ہمدردوں کو ڈرا دھمکا کر اُن کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ شیر گرفتار ہو چکا ہے اور کسی وقت بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔اس خبر نے پورے جنگل کو دم بخود کر دیا اور سب جانور اپنے اپنے کونے کھدروں میں دبک کر بیٹھ گئے ۔شکاری کو جنگل میں ایسا شاندار موقع اس سے پہلے نہ ملا تھا کہ شیر اکیلا تھا اور مکمل طور پرشکار ی کے جال میں پھنسا ہوا بھی ۔یہ ایک نادر موقع تھا اگر شکاری چاہتا تو شیر کا ایک ہی وار میں کام تمام کر سکتا تھا لیکن 12 اکتوبر 1998 ؁ء کا شکاری اناڑی تھا ۔وہ خوش فہمی کا شکار ہوگیا اُس نے سوچا کہ کیوں نہ مردہ شیر کی کھال سے محل کوسجانے کے بجائے اپنے محل میں اس زندہ شیر کو ایک پالتو قیدی بنا کر رکھا جائے۔ اس سے اُس کی ہیبت سب اہلِ جنگل پر اچھی طرح قائم ہوجائے گی اور پھر یوں ہوا کہ کچھ دن کے لیے واقعی شکاری نے شیر کو اپنا پالتو قیدی بنا کر محل میں رکھا بھی ۔لیکن پھر اچانک ایک دن صحرا کے بادشاہ نے اس شیر کو شکاری سے مانگ لیا ۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شکاری صحرا کے بادشاہ کو شیر دینے سے انکار کردیتا ،بھلا شیر کا صحرا سے کیا واسطہ ۔لیکن جیسا کہ ہم نے آپ کو بتا یا ہے کہ 12 اکتوبر 1998 ؁ء کا شکاری اناڑی تھا اس لیے اُس نے اپنے ہاتھوں سے زخمی کیے ہوئے شیر کو صحرا کے بادشاہ کے حوالے کر دیا ۔حالانکہ جنگل کی ایک کہاوت ہے کہ ’’جس دشمن کو آپ ہلاک نہیں کرسکتے اس کو زخمی بھی نہ کریں ،کیوں کہ زخمی دشمن آپ کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑا دشمن بن جاتا ہے‘‘۔لیکن شیر کی قسمت اچھی تھی کیونکہ شکاری نے کبھی یہ کہاوت بھی نہیں سنی تھی ۔بہرحال قصہ مختصر شیر کو صحرا کی آب و ہوا راس آگئی اور صحرا کے بادشاہ کے بے جا نوازشوں کی وجہ سے وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور ہوگیا۔صحرا کی آسائشوں نے اُسے سب کچھ بھلا دیا، اگر کچھ نہیں بھلایا تو وہ شکاری تھا ،شیر کو ہر وقت ایک ہی خیال تنگ کرتا رہتا کہ کسی طرح وہ دوبارہ جنگل جائے اور شکاری سے اپنی جنگل سے جلاوطنی اور اپنی روح پر لگنے والے زخموں کا انتقام لے ۔اپنے ان خیالات کا اظہار اُس نے کئی بار صحرا کے بادشاہ سے بھی کیا لیکن صحرا کے بادشاہ نے اُسے ہر بار ایک ہی نصیحت کی کہ ’’وہ بدلہ کا خواب دیکھنا بند کردے ‘‘لیکن شیر دھن کا پکا تھا ایک دن موقع دیکھ کر جنگل آدھمکا ، جنگل کے باسیوں نے شیر کا استقبال تو نہیں کیا لیکن درپردہ مدد ضرور کی ۔ اناڑی شکاری اس سے پہلے کہ صورتحال کا صحیح ادراک کر پاتا، شیر نے شکاری کوگھیر لیا او ر قریب ہی تھا کہ شیر شکاری کی تکہ بوٹی کر دیتا کہ اچانک صحرا کا بادشاہ بیچ میں آن ٹپکا اور اس نے اس بار شیر سے شکاری کو مانگ لیا ،شیر صحرا کے بادشاہ کا احسان مند تھا، اس لیے اُس نے نہ صرف خوشی خوشی شکاری کو اُس کے حوالے کردیا بلکہ جنگل کے آخری کونے تک پورے پروٹوکول کے ساتھ اُسے الوداع کہنے بھی آیا ۔

شکاری تو شیر کے ہاتھ سے چلا گیا لیکن شیر کا جذبہ انتقام اُس کے دل اندر ہی دبا رہ گیا ۔بس پھر کیا تھا شیر آدم خور ہوگیا یہ جس انسان کوبھی دیکھتا اس کو اس میں شکاری ہی نظر آتا اور اُس پر حملہ آور ہوجاتا ،یوں شیر نے جنگل میں آنے والے کئی انسانوں کا شکار کیا حالانکہ وہ بے چارے شکاری بھی نہیں تھے لیکن شیر کو ہر انسان میں صرف شکاری ہی نظر آتا تھا یوں شیر نے چار سال گزار دیئے ،ان گزرے سالوں میں شیر نے آس پاس کی بستیاں بھی نہیں چھوڑیں جہاں اُس نے انسانوںکا شکار نہ کیا ہو ۔آخر کار جنگل کے ارد گرد قائم بستیوں کے باسیوں نے شیر کی آئے روز کی خوش خوراکی سے تنگ آکر ایک دن اُس کا انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ شکار کرنے کا منصوبہ بنایا ۔قصہ مختصر کئی شکاریوں پر مشتمل ایک ٹولی نے شیر کو گھیر لیا لیکن شیر اُن کے چنگل سے نکل بھاگا لیکن اس بار شیر کے بچے شکاریوں کے جال میں پھنس گئے جس کی وجہ سے شیر کو بھی جال میں آنا پڑا ،اس بار جال12 اکتوبر 1998 ؁ء کے مقابلے میں بہت بڑا ہے اور شکاری بھی کئی ۔اور اس بار صرف شیر ہی نہیں شیر کے بچوں کا بھی سوال ہے کہ آیا ان سب کو شکاریوں کے چنگل سے کون بچائے گا ۔اس بار صحرا کا بادشاہ بھی بیچ میں نہیں آرہا کیونکہ کسی نے صحرا کے بادشاہ کو مخبری کردی ہے کہ اس بار جو شکاری ہیں وہ اناڑی نہیں ہیں اور انہوں نے وہ کہاوت بھی سن رکھی ہے کہ ’’جس دشمن کو آپ ہلاک نہیں کرسکتے اس کو زخمی بھی نہ کریں ،کیوں کہ زخمی دشمن آپ کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑا دشمن بن جاتا ہے‘‘۔قصہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے ،شیر کا انجام ابھی باقی ہے اگر تو اس بار بھی شکاری 12 اکتوبر 1998 ؁ء والے شکاری کی طرح اناڑی نکلے تو پھر شیر جنگل میں دوبارہ ضرور آئے گا اور یہ کہانی دوبارہ سے لکھی جائے گی بصورت دیگر اس کم لکھا کو ہی زیادہ سمجھا جائے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں