میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہندوستانی مسلمان بے یقینی کا شکار

ہندوستانی مسلمان بے یقینی کا شکار

منتظم
اتوار, ۱۸ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

شہزاد احمد
پورے آسام میں بنگالی مسلمان شدید بے یقینی کی کا شکار ہیں۔ شہریت کی دوسری اور آخری فہرست جون کے اواخر میں آنے والی ہے۔ آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت اور قومیت کا مستقبل اسی فہرست پر منحصر ہے۔ دوسری طرف شہریت سے محروم کیے جانے والوں کو ملک سے نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔ انھیں بنگلہ دیش بھیجنے کے لیے پہلے ان کی قومیت کی شناخت طے کرنی ہوگی۔دوئم یہ کہ بنگلہ دیش سے اس قسم کا کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے۔ یہ ثابت کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا کہ یہ بے وطن ہونے والے باشندے بنگلہ دیشی شہری ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال ہے۔

حال ہی میں ایک خبر منظر عام پر آئی کہ ریاست آسام میں 100 سال سے مقیم 34 فیصد مسلمانوں کو بنگالی قرار دے کر انہیں ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔ بھارت کی شدت پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس اور حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا موقف ہے کہ آسام میں لاکھوں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن آکر بس گئے تھے جنہیں نکالنے کے لیے سب سے پہلے انہیں بھارتی ووٹرز لسٹوں سے خارج کرنا ضروری ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر رنجیب داس نے بھی اس حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام لوگوں کے نام ووٹرلسٹ سے باہر کرکے ووٹ کا حق ختم کردیا جائے گا۔

آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 34 فیصد ہے۔ ان میں اکثریت بنگالی نسل کے مسلمانوں کی ہے جو گزشتہ 100 برس کے دوران یہاں آکر آباد ہوئے۔ یہ لوگ بیشتر غریب، غیر تعلیم یافتہ اور زرعی مزدور ہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے گزشتہ کئی سال سے ووٹر لسٹ میں بنگالی مسلمانوں کو شہریت کے دستاویزات یا ثبوت پیش نہ کرنے کی پاداش میں ڈی ووٹر مشکوک شہری لکھنا شروع کررکھا ہے۔ جسٹس فورم کے رکن عبدالباطن کھنڈ کار کا کہنا ہے کہ ڈی ووٹرز اور ڈکلیئرڈ فارنرز کی تعداد تقریباً 5 لاکھ اور ان کے بچوں کی تعداد 15 لاکھ ہوگی اور یہ سب نئی ووٹرز فہرست میں شامل نہیں ہوں گے اور اندیشہ ہے کہ کم از کم 20 لاکھ بنگالی مسلمان شہریت اور قومیت سے محروم ہو جائیں گے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی نگرانی میں ریاست کی شہریت حاصل کرنے والے شہریوں کی دوسری اور آخری فہرست تیار کی جارہی ہے اور رواں برس جون میں نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز (این آر سی)حتمی فہرست جاری کرے گی۔ آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت اور قومیت کا مستقبل اسی فہرست پر منحصر ہے۔این آر سی کے سربراہ پرتیک ہجیلا کا کہنا ہے کہ ریاست کی شہریت حاصل کرنے والی فہرست میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جنہیں ڈی ووٹر یا غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ شہریوں کی فیملی ٹری کی جانچ ہو رہی ہے اور 29 لاکھ خواتین نے پنچایت سرٹیفیکیٹ دے دئے ہیں تاہم ان کی بھی باریکی سے چھان بین ہو رہی ہے۔دوسری جانب بھارتی حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر ملک بدر کیے جانے والے مسلمانوں کو گرفتار کرکے حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لیے بعض مقامات پر زمینیں بھی حاصل کررکھی ہیں جب کہ ریاست میں جورہٹ، ڈبروگڑھ، گوالپاڑہ، سلچر، تیج پور، اور کوکراجھار کی جیلوں میں پہلے ہی حراستی کیمپ بن چکے ہیں۔

آسام کے موری گاؤں کے عبدالقادر بنگالی نسل کے لاکھوں باشندوں کی طرح کئی نسلوں سے ریاست میں آباد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس 1941 سے اب تک کے تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن انھیں غیرملکی یعنی بنگلہ دیشی قرار دیا گیا ہے۔ انھیں فارنرز ٹرائبیونل میں اب ثابت کرنا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں ہمارا جنم یہیں ہوا۔ ہم نے سارا ریکارڈ جمع کیا ہے 1941 سے اب تک کا۔ میں نے 1950 کا حج کا پاسپورٹ بھی دیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے فارنر ڈکلیئر کر دیا۔اسی ریاست میں گوالپاڑہ کی مرجینا بی بی بھارتی شہری ہیں لیکن پولیس نے انھیں ایک دن بنگلہ دیشی کہہ کر گرفتار کر لیا۔ وہ آٹھ ماہ تک جیل میں رہیں۔ مرجینا کہتی ہیں میرے چچا نے سارے کاغذات دکھائے۔ سارے ثبوت پیش کیے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں بنگلہ دیشی ہوں۔ جیل میں میرے جیسی ہزاروں عورتیں قید ہیں۔مرجینا ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد جیل سے رہا ہوئی ہیں۔

بھارت میں مسلمان اقلیت کا قتل عام اور ان کا معاشی استحصال جس طرح بھارتی انتہاپسند ہندو مودی حکومت کی پشت پناہی سے کر رہے ہیں اس کی طرف سے امریکا و عالمی برادری نے آنکھیں مکمل بند کر رکھی ہیں۔ یہ مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر قتل وغارت گردی انہیں بالکل نظر نہیں آتی۔ خود بھارتی اخبارات ان مسلم کش اقدامات کیخلاف پھٹ پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی موجودہ متعصب حکومت کے دور میں مسلمانوں کو گائو رکھشا کے نام پر خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کیخلاف مظالم سوفیصد بڑھ گئے ہیں مگر بھارتی حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ الٹا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث افراد کو عدالتوں سے بری کیا جارہا ہے۔

کشمیر میں بھی بھارتی مظالم عروج پر ہیں۔ بھارتی افواج کریک ڈائون کرکے گھر گھر تلاشیوں کے نام پر کشمیریوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ توڑ پھوڑ کی وارداتوں میں ملوث ہے۔کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر قسم کا ظالمانہ حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اسکے باوجود بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے پاکستان پر کشمیریوں کو بھارت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام لگا رہے ہیں۔

امریکا اور عالمی برادری کوبھارتی مسلم کشی کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ اس کے لیے عالمی قیادتیں بشمول امریکا بھارت پر دبائو ڈالے کہ وہ اپنی مذہبی شدت پسندی کی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور مسلمان اقلیت کو تحفظ دے۔ حکومت پاکستان سفارتی سطح پر اپنے سفارتخانوں کو فعال کرے تاکہ وہ دنیا کے سامنے بھارت کا سفاکانہ چہرہ بے نقاب کریں اور وہاں مذہبی بنیاد پر مسلم اقلیت پر مظالم کی راہ روکی جاسکے۔

بھارت میں جب سے انتہا پسند بی جے پی اقتدار میں آئی ہے وہاں مسلمان اور دوسری اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے سیکولر ہونے کے دعویدار بھارتی معاشرے کو مکمل طور پر ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ جبکہ بھارتی حکمران سیاست دان فخریہ اعلانات کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں۔حدتو یہ ہے کہ اب بھارتی کرکٹ بورڈ بھی مسلمان کھلاڑیوں کو بھارتی کرکٹ ٹیم میں شامل کرنے سے گریزاں ہے، حالانکہ مسلمان کھلاڑیوں نے کرکٹ میں نام پیدا کیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں