میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لاہور میں خود کْش حملہ اور سکیورٹی انتظامات

لاہور میں خود کْش حملہ اور سکیورٹی انتظامات

منتظم
هفته, ۱۷ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

لاہور کے علاقے رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر خود کش حملے میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد شہید اور 11 پولیس اہلکاروں سمیت 35 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ غماز ہے کہ معاشرے کا امن تباہ کرنے کے درپے قوتوں کی کمر ضرور توڑی جا چکی ہے‘ لیکن اب بھی وہ اس قابل ہیں کہ کسی اجتماع یا کسی فرد کو نشانہ بنا سکیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے‘ دہشت گردی کی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ دبئی میں پاکستان سپر لیگ کے میچز جاری ہیں اور ان کے سیمی فائنلز لاہور میں جبکہ فائنل کراچی میں کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حال ہی میں سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے ہیں‘ جس سے ملک میں جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی پر قائم رہنے کی امید بڑھی ہے اور اگلے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے توقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پھر دو روز قبل ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان کا تین روز دورہ مکمل کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوںمیں اہم دو طرفہ ‘ بین الاقوامی اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم کیا گیا۔

یہ سارے معاملات پاکستان میں مثبت تبدیلیوں کی غمازی کرتے ہیں اور یہی بات ہمارے دشمنوں کو قبول نہیں؛ چنانچہ ایک بار پھر وہ معاشرے کا امن تباہ کرنے کی کوشش میں جزوی طور پر کامیاب ہوئے؛ تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ایسی وارداتوں پر دل شکستہ نہ ہونے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم اور ارادے پر قائم ہے‘ جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز بھی بہاولپور کے اپنے دورے کے دوران واضح کیا کہ پاک فوج کسی بھی خطرے کے خلاف لڑنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ اس عزم اور حوصلے کے ذریعے ہم ان شااللہ بہت جلد دہشت گردی کے عفریت پر کلی طور پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ پاکستان میں اس تحریک کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کی سرگرمیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ پہلے آپریشن ضربِ عضب کے تحت شمالی وزیرستان میں اس تحریک کے ٹھکانوں کا خاتمہ کیا گیا اور اس کے رہنمائوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا۔ اب آپریشن ردالفساد کے تحت اس تحریک سے وابستگی اور ہمدردی رکھنے والے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ یعنی پاکستان سے اس تحریک کی باقیات کو بھی ختم کیا جا رہا ہے‘ لیکن سوات‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشنوں کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کے جو لوگ سرحد عبور کرکے افغانستان فرار ہو گئے تھے‘ وہ وہاں سے اب بھی بروئے کار ہیں‘ لہٰذا پاکستان سے ڈو مور کا تقاضا کرنے کے بجائے امریکا کو افغانستان میں اس تحریک کے سرگرم ارکان کے خاتمے پر توجہ دینا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں میں حقیقی اور پائیدار امن کی راہیں استوار ہو سکیں۔

لاہور میں بدھ کے روز ہونے والے خود کش حملے کی مکمل تحقیقات ہونا چاہیے‘ تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ یہ خودکش حملہ آور کہاں سے آیا اور کیسے تبلیغی اجتماع تک پہنچا۔ اور یہ کہ اسے راستے میں کیوں نہیں روکا جا سکا۔ضروری ہے کہ تبلیغی اجتماعوں سمیت تمام اہم اداروں اور جگہوں کی سکیورٹی کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اسے فول پروف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ایک بڑے سانحے کو روکنے کی سعی میں شہید ہونے والی پولیس اہلکاروں کو قومی سطح پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ نومولودوں کی شرحِ اموات وزارت قومی صحت نے انکشاف کیا ہے کہ نومولود بچوں کی شرح اموات 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016ء میں 63 لاکھ بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ان میں سے 4 لاکھ 41 ہزار بچے ایک سال سے پہلے وفات پا گئے۔ 2 لاکھ 90 ہزار بچوں کی ایک ماہ کی عمر میں اموات ہوئیں جبکہ بچوں کی قبل از زچگی شرح اموات 40 فیصد ہے۔ یہ دل دہلا دینے والی رپورٹ ایک خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے‘ جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہسپتالوں اور مراکزِ صحت میں زچہ و بچہ کی صحت اور علاج معالجہ کے حوالے سے مناسب انفراسٹرکچر اور سہولیات موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں تو انہیں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہر سالانہ بجٹوں میں صحت کے لیے جو رقوم مختص کی جاتی ہیں‘ ان میں سے بہت تھوڑی اس مقصد کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ حکومت کو اس معاملے پر فوری توجہ دینا چاہیے اور ہسپتالوں میں ایسی سہولیات فراہم کرنا چاہئیں‘ جو نومولود بچوں کی زندگیاں بچانے میں ممد ثابت ہو سکیں۔ ہر سال ہزاروں خواتین دورانِ زچگی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں؛ چنانچہ مائیں بننے والی خواتین کو صحت و صفائی اور علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کرکے بھی نومولود بچوں کی شرح اموات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں