سندھ میں مہاجروں کی سیاسی حیثیت
شیئر کریں
رائو عمران سلیمان
تحریک پاکستان کے زمانے میں آزادی کی تحریک کا مرکز چونکہ یوپی اورممبئی رہاہے لہذا جب پاکستان قائم ہوگیا اور تمام ہندوستانی علاقوں سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آنے لگے۔ تو یوپی اور ممبئی سے بھی بڑے بڑے زمیندار ،راجہ مہاراجہ،نواب اور عام عوام جو انتہائی تعلیم یافتہ تھے ایک بہت بڑی تعداد میں ہجرت کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تو انہوںنے اپنامسکن کراچی اور حیدرآبادکو بنایا اس کے علاوہ یہ لوگ لاڑکانہ سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی آباد ہوئے مگر ان مہاجروں نے کراچی اور حیدرآباد کو خصوصی طوپر اپنی رہائش گاہ بنایا،چونکہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجروں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ انتہائی پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگ تھے لہذا انہوںنے جلد ہی اپنی علمی قابلیت کے بل بوتے پر پاکستان کی بیوروکریسی میں پنجے گارڈھ دیے، شہید ملت خان لیاقت علی خان بھی ہجرت کرکے آنے والوں میں سے تھے جس کی بدولت مہاجروں کو ایک ایسی نمائندگی مل گئی جس سے بہت سے بند درووازے بھی کھلتے چلے گئے اس کے علاوہ مہاجروں نے اس طرح سے اپناکردار اداکیا جیسے صدیوں سے ہی یہاں کے باشندے ہو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مہاجرین جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور قیام پاکستان کے لیے اپنے خاندان کے بے شمار لوگوں کی قربانیاں دیکر یہاں آکر آباد ہوئے تھے اس مادروطن کے لیے قربانیاں دینے والے لاکھوں لوگوں کی طرح یہ بھی اس ملک کے حقیقی وارث ہی تھے۔
اسی طرح پاکستان بننے کے فوراً بعد جو بیوروکریسی نظر آئی اس میں پنجابی اور بنگالی افسران کے علاوہ مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ تھی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے جو شہری علاقے تھے وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی پکی آماجگاہ بن گئے جس نے جلد ہی سیاسی اورثقافتی نظام کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور اس طرح ان معاملات کے بعد جب بھی ان علاقوں میں انتخابات ہوئے تو ان شہروں سے اردو بولنے والے ہی منتخب ہوتے رہے ۔مثال کے طور پر 1970کے عام انتخابات جو پاک فوج نے کروائے تھے اس میں جو ان علاقوں سے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے وہ سب کے سب اردوبولنے والے ہی تھے ان میں جوقومی اسمبلی کے امیدوار کامیاب رہے ان میں مولانا شاہ احمد نورانی جن کا تعلق یوپی سے تھا اسی طرح پروفیسر شاہ فریدالحق،علامہ غلام مصطفی ازھری ،جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی جبکہ اسی طرح حیدرآباد سے مولانا سید محمد علی رضوی منتخب ہوئے ،صوبائی اسمبلی میں پہنچنے والے بھی سب اردو بولنے والے ہی تھے،اس کے بعد سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کم وپیش پچیس سالوں سے ایم کیوایم کے منتخب نمائندوں نے جیت کی اس روایت کو قائم رکھا اور اردوبولنے والوں نے اپنے ہی نمائندوں کو منتخب کروایا ،اس کے علاوہ ایم کیوایم ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ سے بھی جو لوگ کامیاب رہے وہ بھی اردوزبان ہی کی مرہون منت رہا۔ جس میں 93کے عام انتخابات میں نوازلیگ کے زہیر اکرم ندیم ،ابوبکر شیخانی ،صاحبزادہ شبیر حسن انصاری ،حلیم صدیقی ،حافظ محمد تقی، اعجازاحمد شفیع،جماعت اسلامی کے مظفرہاشمی، جبکہ پیپلزپارٹی میں بھی ایک اردو بولنے والا این ڈی خان کامیاب ہوا ۔
گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ سندھ میں اردو بولنے والے مہاجر اپنے آپ میںایک بہت بڑے سیاسی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح سے ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین صوبائی اسمبلی نے سینیٹ انتخابات کے دوران خود کو کھلے بازار میں بیچا ہے اس سے سندھ میں بسنے والے اردو بولنے والوں کو جس کرب سے گزرنا پڑرہاہے اسے یہاں لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا میںسمجھتا ہوں کہ اس عمل سے انہیں اس وقت نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہاہے مہاجروں کے ووٹوں کی اس تزلیل سے لاکھوں آنکھیں اشک بار ہوئی ہیں جیسے ہی الیکٹرونک میڈیا میں یہ خبر نشر ہوئی کہ مہاجروں کے منتخب نمائندوں نے پیپلزپارٹی کے لوگوں کو سینیٹر بنانے کے لیے چند لاکھ روپے کے عوض اپنا ووٹ بیچ دیاہے اس نے ان لوگوں کو بھی بولنے پر مجبور کردیاہے جن کا تعلق اردو زبان سے دور دور تک نہیں ہے۔
آج ہر زبان بولنے والا ہی حیران وپریشان ہے کیونکہ یہ کون نہیں جانتا ہے کہ پیپلزپارٹی ماضی میں مہاجروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی رہی ہے 1970سے لے کر آج تک اردو بولنے والوں پر پیپلزپارٹی کی جانب سے جو پہاڑ توڑے گئے ہیں اسے کس طرح سے پس پشت ڈالا جاسکتاہے ،یہ لوگ کس طرح بھول گئے کہ 1977حیدر آباد میں اردو بولنے والوں کی ایک تحریک نظام مصطفی میں اس وقت کی FSFنے یعنی فیڈرل سیکورٹی فورس جو زوالفقار علی بھٹو نے لوکل سطح پر نمٹنے کے لیے بنائی تھی اس کے جوانوں نے پریٹ آباد کے حسینی چوک پر پلک جھپکتے میں 11لاشیں گراڈالی اور اس حملے میں ڈیڈھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے اسی روز حیدر آباد میں ہی مدینہ مسجد سرے گھاٹ سے نکلنے والے جلوس پر فائرنگ کردی گئی جس میں 5افراد جاںبحق اور سینکڑں زخمی ہوگئے اور ا س کے علاوہ حیدرآباد کے عوام سانحہ پکا قلعہ کو کیسے بھول سکتے ہیں جس میں پیپلزپارٹی نے اپنے سیاسی و زاتی مفادات کی خاطردرجنوں لوگوں کوگولیوں کا نشانہ بنادیااس سانحے میں 5ہزار پولیس اہلکاروں نے پکا قلعہ کا محاصرہ کرلیا جو کئی روز تک جاری رہا۔
30ستمبر کا وہ سانحہ جس میں صرف 10منٹ کے ا ندر اندر حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں 4سو افراد کو موت کی نیند سلادیا گیا جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والا پیپلزپارٹی کے نصیر اللہ بابر کا وہ آپریشن جس نے ظلم وجبرکی داستانوں کو رقم کرڈالا یہ سب باتیں کس طرح سے بھلادی گئی ہیں اس کا تزکرہ کرنا بھی مشکل ہے ،ان تمام باتوں کے باوجوداس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو بولنے والوں کی جواکثریت ہے وہ اب بھی عام انتخابات میں اپنے ہی نمائندوں کو کامیاب کروائینگے مگر جو تسلسل ایم کیو ایم کا جاری تھا اس کا اب شیرزاہ بکھر چکاہے مگران تمام باتوں کے باوجود ایم کیو ایم کے بکھرنے کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ مہاجروں کی تہذیب وتمدن کا خاتمہ ہوچکاہے بلکہ یہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، فرق یہ ہے کہ اس بار ایم کیو ایم کو شاید وہ مقام نہ مل سکے جو گزشتہ پچیس سے تیس سالوں تک انہیں ملتا رہا ہے مگر ان کا ووٹ مہاجروں کا تھااور مہاجروں کوہی ملے گا خواہ وہ نمائندہ کسی بھی جماعت سے کیوں نہ تعلق رکھتاہو،بحرحال سندھ میں مہاجروں کی مسلمہ سیاسی حیثیت برقرار ہے اور برقرار رہے گی ۔اس کے علاوہ جہاں تک میری معلومات ہے کہ مہاجروں کے جن اراکین نے اپنا ووٹ پیپلزپارٹی کو فروخت کیاہے وہ اراکین اسمبلی اب گھروں سے نکلنے سے بھی خوفزدہ ہیں کہ شاید اردوبولنے والوں کا وہ ہاتھ جو انہیں ہمیشہ ووٹ دیکر منتخب کراتا رہا کہیں وہ ہی ہاتھ ان کے گریبانوں تک نہ پہنچ جائے ۔