میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
منصوبہ بندی اور تحمل

منصوبہ بندی اور تحمل

منتظم
منگل, ۶ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

فنانشیل ٹاسک فورس کاالمیہ جو لشکر طیبہ سمیت دہشت گردی میں ملوث 1267 تنظیموں کے بارے میں بیرونی دبائو پر جلد بازی میںقبول کی ان ذمہ داریوں کی تازہ ترین عکاسی ہے جن پر عملدرآمد بہت مشکل ہے پاکستان کو فنانشیل ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکی پر پاکستان نے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں کوششیں شروع کیں پاکستان کے سفارتکار پس پردہ ملاقاتوں کے ذریعے پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیے جانے سے بچانے میں وقتی طورپر کامیاب ہوگئے تھے لیکن پاکستان کی جانب سے قبل از وقت ٹوئٹ پر امریکا کے شدید ردعمل پر یہ صورت حال تبدیل ہوگئی ۔اور اب پاکستان کو فنانشیل ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے سے بچنے کے لیے سخت شرائط کا سامنا ہے۔ امید ہے کہ ہم اس المیے کے لیے اپنی نااہلی کی ذمہ داری اپنے دوستوں پر ڈالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

پیرس میں پاکستان کے خلاف بننے والا یہ ماحول امریکا کی جانب سے پاکستان کو افغان طالبان اور کشمیریوں کے حامی گروپوں کی مدد روکنے پر مجبور کرنے اور پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگراموں پر یکطرفہ پابندیاں قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم کانتیجہ ہے۔ پاکستان نے اس صورت حال میں کوئی واضح منصوبہ نہ بنایا تو وہ چھوٹی چھوٹی رعایتوں کے جال میں پھنس سکتا ہے ۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیاپاکستان نے امریکا اور بھارت کی جانب سے پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے چلائی جانے والی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے یا نہیں؟ اسلام آباد کی جانب سے جاری کیے جانے والے اب تک کے بیانات سے امریکا کی جانب سے پاکستان کی بے حرمتی پر غصے اور برہمی کے اظہار اور امریکا کے مطالبات اوراس خطے میں نئی امریکی حکمت عملی کی مخالفت اورسے سرکشی پر مبنی ہیں۔امریکا کے ساتھ ایک قابل قبول حل کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے پاکستان کی اہلیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اول :پاکستان اپنے مقاصد، ترجیحات اور آخری حدوں کی واضح نشاندہی کرے ، دوم: امریکا کو اس بات پر قائل کرنا کہ اگر اس نے پاکستان کی آخری حد یعنی سرخ لکیر عبور کی تو پاکستان اس کے مطالبات مسترد کردے گا۔اور سوم:یہ کہ وہ چین ،روس، ترکی ،ایران اور دیگر علاقائی طاقتوں سے اپنے موقف کی حمایت حاصل کرے۔

ایک واضح حکمت عملی اور منصوبے کے بغیر چھوٹی چھوٹی رعایتوں کے جال میں پھنس کر دبائو میں اضافہ ہوسکتاہے۔بدقسمتی سے بظاہر یہی صورت حال نظر آرہی ہے۔امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی توجہ مرکوز کرانے میں کامیاب رہے ہیں اور اگرچہ پاکستان کی ا سٹریٹیجک پالیسی میں ابھی تک کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے لیکن انھیں پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے بعض مثبت اقدام نظر آرہے ہیں۔

تمام سفارتکاری کچھ لو اور کچھ دو پر ہوتی ہے۔ اگر پاکستان کچھ دے گا تو اسے اس کے بدلے کچھ حاصل کرنا چاہئے۔امریکا سے احترام کرنے کامطالبہ کافی نہیں ہے۔ اس طرح کے احترام کاانحصار لچک پر ہوتاہے ، پاکستان نے دفاع اور اپنے قومی مفادات کی پروموشن کے لیے جس کااظہار کیاہے۔

پاکستان افغانستان کو افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دینے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہاہے۔ امریکا نے اس کے مقابلے میں طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کرنے کو کہا ہے جسے طالبان امریکا کی کٹھ پتلی تصور کرتے ہیں، افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کومذاکرات کرنے کی دعوت دی ہے اورانھیں حقیقی مذاکراتی فریق تسلیم کرنے کی پیشکش کی ہے ، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشکش طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب نہیں ہوگی ۔

پاکستان کو دوسرے علاقائی ممالک افغانستان ، چین ، پاکستان اور امریکا کے ساتھ مل کر اس دوران ہونے والی پیش رفت کو سامنے رکھتے ہوئے امن مذاکرات کی بحالی کی کوشش کرنی چاہئے اور اس حوالے سے مربوط میکانزم یا کوئی دوسرا فارمیٹ استعمال کرنا چاہئے۔ لیکن چونکہ پاکستان نے مذاکرات کو آگے بڑھایا ہے اس لیے مذاکرات کی کوششوں کے ساتھ اس سے طالبان رہنمائوں کوقتل کرنے یا انھیں گرفتار کرنے پر مجور نہیں کیاجانا چاہئے۔اس کے ساتھ امریکا کو افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرنے اور بھارت کی جانب سے افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کرائے جانے کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے کارروائی کرنی چاہئے۔

جہاں تک کشمیر کے حامی گروپوں کاتعلق ہے تو پاکستان نے یواین ایس سی کی جانب سے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو دہشت گرد گروپوں میں شامل کیے جانے کوتسلیم کیاہے اور یواین ایس سی کی قرارداد نمبر1267 کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کاپابند ہے۔اب اسے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی مدد کے لیے دیگر قانونی اور جائز ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔امریکی دبائو کے سبب پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں ختم کرنے کی صورت میں مقبوضہ کشمیر میں انتہاپسند انہ پرتشدد واقعات میں کمی کرنے میں مدد دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کو یہ بھی توقع کرنی چاہئے کہ امریکا بھارت کی دھمکیوں اورجارحیت جس میں روزانہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں شامل ہیں بھی بند کرائے گا۔بصورت دیگر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی اور اس سے ایٹمی اسلحہ کی دوڑ میں اضافہ ہوسکتاہے۔

امریکا کے ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلائو کے منصوبے پر سمجھوتے کے لیے کام کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے ایٹمی اور میزائل پروگراموں کو یکطرفہ پابندیوں کے مطالبات کی مزاحمت کرنی چاہئے۔ اس کے متبادل کے طورپر پاکستان کو بھارت اورپاکستان کے درمیان اسلحہ پر رضاکارانہ کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے حوالے سے مختلف اقدامات تجویز کرنے چاہئیںاور بھارت کی جانب سے اس دوطرفہ پابندی کو یقینی بنانے میں مدد دینے کے لیے امریکا سے مدد کی درخواست کرنی چاہئے۔

پاکستان کو امریکا کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے میں جو پاکستان کے وسیع تر مفاد ات سے مطابقت نہ رکھتے ہو، جلد بازی کامظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔پاکستان کی جانب سے ا سٹریٹیجک تحمل کامظاہرہ کرنے کے کئی اسباب ہیں۔اس میں ایک یہ ہے کہ جیساکہ امریکا کے وزیر دفاع نے کہاہے کہ امریکا کی سیکورٹی ترجیح دہشت گردی کے بجائے چین اورروس کے ساتھ مقابلہ کرناہے ،اس کے علاوہ ٹرمپ

انتظامیہ کے طویل الجہتی جارحانہ رویئے کی وجہ سے شمالی کوریا ،ایران،روس اورچین کے ساتھ نئے تنازعات اور مقابلہ آرائی کے نئے محاذ کھل سکتے ہیں۔جس کی وجہ سے افغانستان پس منظر میں چلاجائے گا ۔ واشنگٹن میں اس بات پر اتفاق رائے پیداہوسکتاہے کہ افغانستان ایک بوجھ ہے اور اسے تنہا چھوڑ دیاجانا چاہئے۔ دوم یہ کہ واشنگٹن کی اپنی اندرونی ڈائنامکس امریکا کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے علاوہ بعض دیگر معاملات پر بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کردے ،ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمہ چلا کر سز ادی جاسکتی ہے ،مجوزہ وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کانگریس پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں، ٹرمپ چین کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے تعاون کرنے اوربھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی کرنے پرمجبور ہوسکتے ہیں ،اس طرح کی صورت حال میں پاکستان کے خلاف امریکا اور بھارت کے جارحانہ اور معاندانہ رویئے اور سلوک کاخاتمہ ہوسکتاہے۔تیسرے یہ کہ طویل المیعاد بنیاد پر پاکستان اوردیگر ممالک پر فوجی اور اقتصادی دبائو ڈالنے کی امریکا کی صلاحیت بھی ختم ہوسکتی ہے۔امریکا سماجی اورسیاسی اعتبار سے تقسیم ہے ، ٹرمپ دور کے بعد اس کے اندرونی زخم سوکھنے میں وقت لگے گا، دوسری جانب چین اپنی صدر ژی جن پنگ کی قیادت میں اپنی پالیسی میں تسلسل کے فوائد سمیٹتا رہے گا ،چین میں معیشت کی ترقی بھی عروج پر ہے اور اس کی اقتصادی شرح نمو 7 فیصد سالانہ ہے ،2040 تک عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ20فیصد ،امریکا کاحصہ13فیصد ، بھارت کا7فیصد ہوجائے گا۔

جب بیلٹ اور روڈ کے منصوبے کے تحت 65ممالک اقتصادی طورپر ایک دوسرے سے مربوط ہوجائیں گے تو عالمی معیشت اورعالمی سیاست پر پرچین کے اثرات اس قدر نمایاں ہوں گے جو امریکا کے اثر ورسوخ سے کہیں زیادہ ہوں گے جس کے اثرات کابڑا ہتھیار فوجی حربہ ہے جو کہ بہت ہی مہنگا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے خوشحال چین اور ایک بند اور فوجی جارح امریکا کے درمیان ایک کا انتخاب کون ہوگا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

چین کے اسٹریٹیجک پارٹنر کی حیثیت سے پاکستان تاریخ کی درست راہ پر ہوگا اپنی موجودہ کمزوری کے باوجود پاکستان کو اپنے بنیادی سیکورٹی مقاصد یعنی بھارتی تسلط سے آزادی ،قابل اعتماد ایٹمی اور روایتی ڈیٹرنس ،جموں وکشمیر کے منصفانہ حل اور ایک دوستانہ افغانستان کے لیے پاکستان کو اس سے گریز کرنا چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں