افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت
شیئر کریں
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کو ’’سیاسی قوت‘‘ تسلیم کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کرنے اور الیکشن لڑنے کی دعوت دی ہے، یہ پیش کش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ طالبان کابل میں اپنا دفتر کھول سکتے ہیں، اْن کے رہنماؤں پر عائد پابندی ختم کردی جائیگی، طالبان اور اْن کے رہنماؤں کو پاسپورٹ دئے جائیں گے قیدیوں کو رہا کیا جائیگا یہ پیش کش اگرچہ غیر مشروط ہے تاہم اس کے جواب میں طالبان کو بھی جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا انہیں ملکی آئین اور افغان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا کابل میں دوسری بین الاقوامی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ مذاکرات ہی سے ملک میں امن آئے گا، اعتماد سازی کا عمل شروع ہونا چاہئے جس کے لیے جنگ بندی ضروری ہے افغان صدر نے ماضی میں دئے گئے ایسے ہی بیانات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اب فیصلہ طالبان کے ہاتھ میں ہے، یہ پیش کش قبول کریں اور ملک میں استحکام لے کر آئیں۔
افغان طالبان کو اس طرح کی پیش کشیں ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہیں صدر اشرف غنی کے پیش رو حامد کرزئی بھی طالبان کو الیکشن لڑنے کی دعوت دیتے رہے تھے لیکن یہ کوئی ٹھوس شکل اختیار کرنے کی بجائے ہوا میں ہی تحلیل ہو جاتی رہیں، جب گلبدین حکمت یار کو کابل آنے کی اجازت دی گئی اور اشرف غنی کے ساتھ حامد کرزئی نے بھی اْن کا پرجوش خیر مقدم کیا تو خیال یہی تھا کہ وہ ملک میں امن و امان کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور فریقین کو قریب تر لائیں گے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا کیونکہ طالبان کا مطالبہ یہ تھا کہ مذاکرات سے پہلے غیر ملکی افواج واپس چلی جائیں، چونکہ یہ مطالبہ نہیں مانا گیا اِس لیے مذاکرات کی بات آگے نہ بڑھ سکی، اب دیکھنا ہوگا کہ اس نئی پیش کش کا حشر کیا ہوتا ہے، طالبان اسے قبول کرتے ہیں یا مسترد کرتے ہیں البتہ امریکا کا اب بھی خیال ہے کہ طالبان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں امریکا اس سے پہلے براہ راست مذاکرات کی طالبانی پیش کش کو مسترد کرچکا ہے۔
اشرف غنی نے طالبان کو جودعوت دی ہے کیا اسے امریکا کی تائید حاصل ہے یہ تو اْسی وقت واضح ہوگا جب بات آگے بڑھے گی، اگر فریقین پہلے والی شرائط پر ہی ڈٹے رہے اور اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے آگے نہیں بڑھے تو پھر خدشہ ہے کہ اس پیش کش کا حشر بھی پہلے والی پیش کشوں کی طرح نہ ہو، کیونکہ دونوں میں نیا کچھ بھی نہیں جس طرح صدر اشرف غنی ماضی میں اس طرح کی پیش کش کرتے رہے ہیں اسی طرح طالبان بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر تیار ہوتے رہے ہیں لیکن درمیان میں ’’شرطیں‘‘ حائل ہو جاتی رہی ہیں، طالبان امریکا کو بات چیت کی پیش کش پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور یہ مسترد بھی ہوتی رہی ہے البتہ اب کی بار اس میں تھوڑا سا اضافہ یہ ہوا ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے براہ راست امریکی عوام کو بھی ایک خط لکھ دیا ہے جس کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ اگر حسب سابق امریکی انتظامیہ اس پیش کش کو مسترد کردے تو وہ امریکی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اِس منطق کا سہارا لے سکیں کہ ہم تو مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں، امریکی حکومت ہی بات سننے پر تیار نہیں ہے۔
اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت اور ملک کے آئین کو مانا جائے۔ اصولی طور پر تو یہ مطالبہ درست ہی ہے لیکن طالبان کہتے ہیں کہ اشرف غنی کی حکومت بے اختیار ہے وہ اپنی مرضی سے مذاکرات کرسکتی ہے نہ کوئی ایسی پوزیشن اختیار کرسکتی ہے جو امریکیوں کو پسند نہ ہو، چونکہ اشرف غنی کی حکومت کا تحفظ بھی امریکا کا مرہون منت ہے، امریکی فوج اگر کابل میں نہ ہو تو بہت مختصر وقت میں طالبان اس حکومت کا خاتمہ کرسکتے ہیں، اِس لیے طالبان امریکا کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہیں جواب میں امریکا کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اگر اْنہیں مذاکرات کرنے ہیں تو افغان حکومت کے ساتھ کریں اب اس اختلاف رائے میں مقامِ اتصال کہاں آتا ہے اور کیا اس جانب کوئی پیش رفت ہوتی ہے یا پھر سارے معاملے کا حشر پہلے کی طرح ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا ہوگا۔
افغانستان میں امن قائم کرنے اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کرنے سے گریز کیا جائے اور مذاکرات میں عقل و شعور اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرکے کسی ایسے نتیجے پر پہنچا جائے جو ملک میں معمول کے حالات پیدا کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو، افغانستان کے عوام پہلے ہی عشروں پر پھیلی ہوئی بدامنی کی صورت میں بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں قیمتی جانی نقصان اپنی جگہ، ہزاروں لوگ اپاہج ہو کر زندگی پر بوجھ بن چکے ہیں، کیا ان لوگوں کا حق نہیں کہ جو لوگ ان کی قسمتوں کے مالک بن گئے یا بنادئے گئے وہ اْن کے ملک میں امن قائم کریں اور کروڑوں عوام کو پر امن طور پر زندہ رہنے کا حق دیں۔ افغانستان جتنے طویل عرصے سے جنگ جیسے حالات سے دوچار ہے دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں ایسا ہو، جو ملک ایسے حالات سے گزرے وہاں جلد یا بدیر امن لوٹ آیا، لیکن افغانستان کی بدقسمتی ختم ہونے میں نہیں آرہی اور اس سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات شروع ہوسکیں گے؟ ماضی کے تجربات کی روشنی میں بظاہر اس سوال کا جواب تو نفی میں ہے، البتہ یہ خدشہ موجود ہے کہ کابل میں حالات مزید خراب ہوجائیں کیونکہ سردیاں ختم ہورہی ہیں اور بہار آرہی ہے یہ بہار عام طور پر افغان عوام کے لیے دکھ ہی لے کر آتی ہے، اسی طرح گرمیوں کے موسم میں جنگ تیز ہو جاتی ہے، شدید سرد موسم جو جنگ میں رکاوٹ بنتا ہے جب بھی ختم ہوتا ہے تو روایت کے مطابق جنگی کارروائیاں تیزتر ہو جاتی ہیں اِس لیے فی الحال امن کی اْمید رکھنا بھی محال ہے، تاہم اگر مذاکرات کا آغاز ہو جائے تو پھر بہتری کی اْمید کی جاسکتی ہے۔
صدر اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے پاکستان کا ذکر بھی اچھے الفاظ میں کردیا ہے اور کہا ہے کہ ماضی کو بھلا کر اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، پاکستان حکومتی سطح پر افغانستان سے مذاکرات کرے اور اس کے لیے بہترین جگہ کابل ہے، اس طرح پاکستان کو وسط ایشیا تک رسائی دی جائے گی اور مہاجرین کی واپسی بھی ممکن ہوگی، صدر اشرف غنی کے یہ خیالات بھی نئے نہیں ہیں تاہم ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے، البتہ امن باتوں سے نہیں عمل سے آئیگا اگر قیامِ امن کی خاطر اقدامات کا آغاز کردیا جائے تو نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطے اور عالمی امن کے لیے بھی بہتر ہوگا۔(تجزیہ)