سی پیک اور خوشحال بلوچستان کاخواب۔۔۔!
شیئر کریں
کامران چوہان
(دوسری قسط)
گزشتہ برس ہونے والے حملوں میں ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکیشن حامد شکیل، ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ، ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کوئٹہ محمد الیاس، DSPعمر الرحمان، CTDانسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی سمیت کئی افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ پاک فوج پر چار دہشت گرد حملے ہوئے جن میں کیپٹن سمیت19اہلکار جاں بحق اور 35زخمی ہوئے۔ اسی طرح لیویز پر دس حملے ہوئے جس کے نتیجے میں12اہلکار جاں بحق ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں نو خودکش سمیت37بم دھماکے جن میں مسیحی برادری کے چرچ پر حملے سمیت دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ جاں بحق افراد اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی تھی مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جانباز جوانوں نے دہشت گردوں کو کنٹرول کیے رکھا۔ صوبے کے جغرافیائی محل وقوع کے باعث ایف سی پولیسنگ کا کام انجام دے رہی ہے۔ جہاں ایک جانب فرنٹیئرکانسٹیبلری (ایف سی) دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما ہے وہیں دوسری جانب دہشتگردوں سے خالی کرائے گئے علاقوں میں معمولات زندگی معمول پر لانے کی بھی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی سلسلے میں اسکولز، میڈیکل سینٹرز، میڈیکل کیمپس، صاف پانی کی فراہمی کے لیے آراوپلانٹس سمیت دیگر عوامی فلاحی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ13سے15 نومبر 2017ء کو بھارت وافغان گٹھ جوڑ کے ذریعے بٹگرام ایئر بیس افغانستان میںہوا جس میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملافضل اﷲ، منگل باغ عبدالولی براہمداغ بگٹی کے زیراثرکام کرنے والی بلوچستان کی علیحدگی پسند دہشتگر دتنظیموں کے20 کمانڈروں را سمیت دیگر غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکارو شریک تھے ۔اس اجلاس کا مقصدسی پیک منصوبے کوکسی بھی قیمت پرناکام بنانے ،بلوچستان کی ہزارہ برادری،اقلیتی برداری،آرمی ،ایف سی اور پولیس کونشانہ بنانے کافیصلہ کیاگیا۔جس کے لیے ملافضل اﷲکو25ملین ڈالرز(ڈھائی ارب روپے سے زائد)دیئے گئے جنہیں دیگر دہشتگرد گروہوں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی ملافضل اﷲ کو سونپی گئی۔اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ دہشتگرد حملے اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اورافسران کی ٹارگٹ کلنگ بلوچستان سب نیشنلسٹز (BSNs) کے نام سے علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں کریں گی جبکہ خودکش دہماکے داعش کے نام سے لشکرجھنگوی،نتظیم الاحرار ودیگرجہادی گروپ انجام دیں گے۔ اس کے بعد 17دسمبر2017ء کوکوئٹہ کے چرچ پر خودکش حملہ کیا گیا جس کی ذمہ داری ISISداعش نے قبول کی تھی۔ اب کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان بالخصوص صوبہ بلوچستان میں جاری عام لوگوں کے خون کی ہولی کے ذمہ دارکالعدم دہشتگردجماعتیں،نام نہادعلیحدگی پسند جنگجو،را سمیت دیگرملک دشمن قوتوںمل کر کھیل رہی ہیں اگر انہیں جلد نہ روکا گیا تو ملک کے دفاع اورپاکستان سے محبت کرنے والے سپاہی،جوان اورعام لوگ بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
کالعدم دہشتگرد جماعتیں نام نہادعلیحدگی پسند جنگجو را سمیت دیگرملک دشمن قوتوں کے گٹھ جوڑکا مقابلہ قومی جذبے سے سرشارہوکر اتحاداوریگانگت سے کرنا ہوگا۔ملک کی تمام سیاسی ،مذہبی جماعتوں اورریاست کے تمام ستون کو مشترکہ جدوجہدکے ساتھ پاکستا ن کے دشمنوں کوشکست دینی ہوگی۔بلوچستان کے زمینی حالات کومدنظررکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے استحصال اوربنیادی سہولیات سے محروم عوام کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔بلوچستان کے حالات کاسدھاراس وقت ممکن ہوپائے گا جب امن وامان کے قیام کے ساتھ وہاں کے عوام کی حالت زارمیں بھی تبدیلی آئے گی۔عرصہ دارزسے جاری صوبے کے حقوق کا مطالبہ اور وسائل کے درست استعمال کویقینی بنایاجائے ۔ دہشتگردوں کے مقامی سہولت کاروں اور ہمدردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کا آغازکرکے پاکستان کے خلاف گمراہ کن ’’مائنڈسیٹ ‘‘کا خاتمہ ممکن بنایاجائے ۔شہروں اورحساس علاقوں کی سیکورٹی کومزیدموثرکیا جائے۔سیکورٹی اداروں کو مزیداپ گریڈ،ایف سی ،پولیس اورلیویزاہلکاروں کو جدیدترین اسلحہ ودیگرسازوسامان سے لیس اورنفری بڑھائی جائے۔قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کی سرزمین پر اب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے ۔اس عظیم الشان منصوبے سے پاکستان بالخصوص بلوچستان کی خوشحالی کے سفرکاآغازہوگا ۔ضرورت اس امر کی ہے ریاست کے تمام ستونوں باہمی مشاورت سے بنیادی سہولیات سے محروم اوردہشتگردی کے شکاربلوچستان کے عوام کے لیے ’’خوشحال بلوچستان ‘‘کے نام سے خصوصی پیکج کا اعلان کریں تاکہ ماضی میں بلوچستان کی غریب عوام کے ساتھ سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہوسکے۔نام نہادحقوق کے جنگ کے نام پر ہتھیاراٹھائے بھٹکے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان کیا جائے۔قوم کی ترقی کے ضامن سی پیک منصوبے کے تحت نوجوانوں کوہنرمندبنانے کے لیے اور انہیں چائنیززبان سکھانے کے لیے ٹریننگ سینٹرزکا قیام عمل میں لایاجائے اور نوجوانوں کوسی پیک کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ اس سے مستفید ہوسکیں اورصوبے میں جاری بیروزگاری کاخاتمہ بھی ممکن ہو سکے۔ قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کا ہرفرد اس چمن کی آبیاری کے لیے اپناکردارادا کرے ملک وقوم کی خوشحالی اور ترقی کے اس لازوال سفر کا آغازخوشحال بلوچستان سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ پرامن،ترقی یافتہ اور خوشحال بلوچستان ہی درحقیقت خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔ (ختم شد)