نوجوانوں کاذہنی الجھائو ختم کرنے کی ضرورت
شیئر کریں
سندھ میں شاہ لطیف کے نام کو بے حد احترام سے لیا جاتا ہے ۔اور اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ شاہ لطیف کا نام ہی سندھ کی پہچان ہے اور شاہ لطیف کے نام کے بغیر سندھ ادھورا رہ جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف کی برسی سندھ ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں سندھ کے رہنے اور سندھ سے محبت کرنے والوں کے علاوہ صوفیانہ طرز زندگی سے محبت رکھنے والے موجود ہیں شاہ لطیف کی برسی انتہائی شایان شان طورپر منائی جاتی ہے ،اور اس حوالے سے پروگراموں کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں پورے سال ہی جاری رکھا جاتاہے اسی حوالے سے گزشتہ دنوں سراج انسٹیٹیوٹ آف سندھ اسٹڈیزکی جانب سے کراچی میں شاہ لطیف پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا مقصد شاہ لطیف کے آفاقی پیغام کو بین الاقوامی طور پر متعارف کراناتھا۔ اس کانفرنس میں شاہ کے حوالے سے مختلف موضوع زیر بحث آئے۔جو منفرد، غیر روایتی اور موجودہ دورہ کی روح سے متصل تھے۔ صوفی ازم کو رویوں کی سائنس بھی کہا گیا۔ جو عمل کی چابی ہے، جسے نظریوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی بنیاد محبت، ربط باہمی اور انکساری ہے۔
صوفی ازم ہمیشہ سے پوری دنیا میں امن وسکون کی علامت رہاہے ،صوفی ازم سے متاثر ہوکر انگریزی شعرا نے اٹھارہویں صدی میںزمانے کی بے ثباتی کاشکوہ کرتے ہوئے رومانوی تحریک کی بنیاد ڈالی تھی۔ولیم ورڈز ورتھ اس تحریک کے روح رواں تھے۔ جس کی معاونت سیموئل ٹیلرکولرج، شیلے، جان کیٹس، بائرن، ٹینی سن اور رابرٹ برائوننگ نے کی۔انھوں نے فطرت کا منفرد انداز میں مشاہدہ کیا اور عام لوگوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ بالکل اسی طرح سندھ میں رومانوی تحریک کے روح رواں شاہ عبداللطیف بھٹائی تھے۔ جس نے فارسی اور عربی کے اثر سے باہر نکل کر، سندھی زبان کواظہار کا ذریعہ چنا۔ نئی سوچ کا بیج، رومانوی رجحان کی ترجمانی کرتا ہے۔ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود آپ نے عام لوگوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ رومانیت کے چند پہلو اہم ہیں جن میں مشاہدہ، تجربے کی وسعت، منفرد اسلوب، داخلیت اور جمالیاتی تحرک وغیرہ شامل ہیں۔
اس فلسفے میں تمام مثبت رویے موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ اس رومانیت کا محور فطرت اور کائنات ہو، بلکہ یہ انداز انسان سے انسان کے تعلق کا حسین امتزاج ہے۔ فلاحی رویوں کی تشکیل کا ایسا ذریعہ ہے جو عدل، انصاف اور بھائی چارے کا پرچارکرتا ہے، لیکن جب ہم محض نظریے پر سوچ کو مرکوز رکھتے ہیں اور نظریے کے تضاد کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں تو سماجی زندگی عمل کی طاقت سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ خوبصورت لفظوں کے مابین زندگی بخش احساس اور مثبت رویوںکی تاثیر کیوں نہیں ملتی۔
بعض حلقوں کا خیال ہے اور وہ اس کابرمال اظہار بھی کرتے ہیں کہ شاہ لطیف موسیقی کے توسط سے سماج کے اندر ارتکاز اور وجد کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ موسیقی انسان کو وجد کی کیفیت میں لے کر آتی ہے۔ وہ منفی سوچ سے باہر نکل کر ایک بار پھر مضبوط ہوجاتا ہے۔ شاہ کی مختلف راگنیوں اور ان کی تاثیر پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ موسیقی رومانوی احساس سے جڑی ہوتی ہے۔ رومانیت، جمالیاتی ذوق کا اہم جزو ہے، جس کے ذریعے حسیاتی تحرک ملتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ کی سماجی زندگی کی تبدیلی میں موسیقی اور صوفیائے کرام کے کلام کا اثر موجود ہے۔ یہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو آپس میں جوڑ کے رکھتا ہے۔کیونکہ آج کل تصوف کے حوالے سے بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سائنسی دور میں تصوف کی اہمیت اور افادیت پر بھی بات کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ایک خیال ہے کہ یہ موضوع محض فیشن کے طور پر لیا جاتا ہے یا تصرف کی تشریح کرنے والے مفکروں کی آرا میں واضح تضاد ملتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگ مستند رائے یا حقیقت سننا چاہتے ہیں۔ عشق حقیقی کے قصے اس پرآشوب دور میں انھیں قصہ پارینہ لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بدھ ازم، تاؤ ازم یا قدیم رومانی مکتبہ فکر کے بنیادی اصول آج بھی چین، جاپان، سری لنکا، نیپال، تھائی لینڈ اور تبت کے معاشروں کو منظم کیے ہوئے ہیں۔ یہ رومانی تحریکیں سماجی بھلائی اور ان معاشروں کے فلاحی فکر سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن صوفی ازم نے ہمارے معاشرے کو کیوں جوڑ کے نہیں رکھا؟ یہ بھی بات کانفرنس میں کی گئی کہ جب ریفارمیشن تحریک دنیائے ادب اور یورپ کے معاشروں کو رفاحی و فلاحی سوچ اور رویے ودیعت کرسکتی ہے تو تصوف کا تناظر زیادہ وسیع اور آفاقی ہے۔ وہ ہمارے ہاں ذہنی انتشار کو کیوں سمیٹ نہیں سکا! ٹھیک ہے ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں فیوڈلزم کا اثر چھایا ہوا ہے۔ لہٰذا سماج میں ایک دم سے بڑی تبدیلی نہیں آسکتی۔ مگر یہ آفاقی سوچ اور پیغام بذات خود ادیب کی سوچ اور عمل پر کس قدر اثرانداز ہوا ہے۔ کیونکہ صوفی فکر کے حامل شعرا ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔ آخر سچل، سامی، بھٹائی، بلھے شاہ، وارث شاہ، بابا فرید و دیگر صوفی ہماری فکری طاقت کیوں نہیں بن سکے۔ جس طرح کنفیوشیس، تائومتی چنگ نے اپنے معاشرے کو بدل ڈالا۔
بعض حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ تصوف اور مسٹیسزم میں فرق موجود ہے کہ نہیں۔ بعض مفکر کہتے ہیں کہ تصوف، مذہب سے بالاتر ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ صوفی ہو یا مسٹک، مونک ہوں یا جین مت کے پیروکار ہوں۔ ایک ہی سوچ کا پرچار کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر بھگوت گیتا میں کہا جاتا ہے ’’میرے بندے میری طرف جس رستے سے بھی آتے ہیں مجھے پا لیتے ہیں۔ کیونکہ سب راستے میری طرف ہی آتے ہیں۔‘‘یا جین مت کا یہ قول ’’تعصبات سے بالاتر ہوکر جب کوئی حق کو کسی بھی جگہ، کسی بھی طریقے اور کسی بھی نام سے پکارتا ہے۔ وہ اس کو پا لیتا ہے کیونکہ وہ ایک ہی ہے۔ بھگت کبیر خدا کو اپنے دل میں ڈھونڈتے ہیں۔ تمام تر آفاقی سچائیاں انسان کو ہر مذہب میں ایک جیسی ملیں گی۔ وہ باہر کچھ نہیں تلاش کرسکتا اگر اس کے دل میں روشنی نہیں ہے۔ شاہ لطیف پر ویدانت کا اثر بھی ایک فکر انگیز مقالہ تھا۔
اطلاعات کے مطابق سراج انسٹیٹیوٹ آف سندھ اسٹڈیزکی جانب سے کراچی میں شاہ لطیف پر اس بین الاقوامی کانفرنس میں مولانا رومی کی بائیسویں نسل سے تعلق رکھنے والی خاتون مفکرایسی سلیبی نے بھی شرکت کی۔ لوگ انھیں اپنے سامنے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے کہ شاہ صاحب کو مثنوی مولانا رومی سے دلی عقیدت تھی۔ انھوں نے مولانا روم کو اپنا روحانی رہبر بھی قرار دیا ہے۔ محقق محمد بخش واصف لکھتے ہیں ’’شاہ صاحب بہت سی زبانیں جانتے تھے مثلاً عربی، فارسی، سرائیکی، ملتانی، ہندی، پنجابی اور بلوچی وغیرہ۔‘‘ سندھی شاہ صاحب کی مادری زبان تھی اور انھوں نے سندھی زبان کو اپنے شعر کے وسیلے کی وسعت عطا کی۔ ایک ہی زبان میں شاعری کا انتخاب ایک دانشمندانہ قدم تھا۔ ایک ہی زبان میں شعر کہنے سے زبان کی وحدت نے ان کے کلام کو آفاقیت بخشی۔ اور زبان کے متنوع پہلو سامنے آئے۔فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نوجوان فلسفے یا تصوف کے حوالے سے ذہنی طور پر الجھا ہوا ہے۔ اسے صحیح اور مکمل رہنمائی کی ضرورت ہے، اس طرح کانفرنسوں میں نوجوانوں کی شرکت یقینی بناکر ان کے ذہن کے الجھائو کو کم بلکہ ختم کیاجاسکتا ہے اور ان کی سوچ کو صحیح سمت دکھائی جاسکتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار خاص طورپر ہماری وزارت تعلیم اور نوجوانوں سے متعلق وزارت کے ارباب اختیار اس حوالے سے عملی کارروائیوں پر توجہ دینے کی کوشش کریں گے۔