نادرا کے راشی افسران اوراہلکاروں کولگام دینے کی ضرورت
شیئر کریں
جماعت اسلامی کراچی نے گزشتہ روز کراچی کے شہریوں کو شناختی کارڈ کی فراہمی میں غیر ضروری رکاوٹیں ڈالنے اور رشوت بٹورنے کے لیے نادرا کے افسران اور عملے کی جانب سے شہریوں کوبلاوجہ پریشان کرنے کی بڑھتی ہوئی شکایات کاازالہ نہ ہونے پر نادرا کے دفتر کے سامنے عوامی دھرنے کااہتمام کیا جس میں اس شہر کے ہر طبقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے شناختی کارڈ کی فراہمی کو آسان تر بنانے اور شہریوں کو تنگ کرکے ایجنٹوں کے ذریعے مبینہ طورپر رشوت بٹورنے کاسلسلہ ختم کرانے کامطالبہ کیا۔
شناختی کارڈ کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر اور شہریوں کوبلاوجہ پریشان کرنے کی شکایات نئی نہیں ہیں ، اس حوالے سے کافی عرصے سے شکایات اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں لیکن نادرا کے اعلیٰ حکام نے کبھی ان شکایات کاازالہ کرنے اور اپنے راشی اور بددیانت ملازموں کو لگام دینے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے ان کا حوصلہ بڑھتاجارہاہے اور اب صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شناختی کارڈ پر پتہ تبدیل کرانے یا اس کی تجدید کے لیے جانے والے شہریوں سے بھی طرح طرح کے لایعنی سرٹیفکٹ اور ڈاکومنٹس طلب کیے جاتے ہیں جبکہ نادرا کے ان مراکز پر موجود ایجنٹوں کو چند سو یا ہزار روپے ادا کرنے کی صورت میں تمام پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں اور منٹوں میں کام ہوجاتاہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ سرٹیفیکٹس اور ڈاکومنٹس محض شہریوں کوپریشان کرنے اور بار بار مراکز پر حاضری دینے سے گھبرا کر رشوت دینے پر مجبور کرنے کے لیے طلب کیے جاتے ہیں۔
اب جب کہ ملک میں انتخابات بھی سر پر آن پہنچے ہیں مگر ملک کا ایک اہم ادارہ نادرا پاکستانی شہریوں کو شناختی کارڈز کی فراہمی میں ٹال مٹول بلکہ مشکلات کھڑی کررہاہے جن پاکستانیوں کے شناختی کارڈ بیس بیس سال قبل بنے تھے اور وہ کئی بار اپنے شناختی کارڈز کی تصدیق کراچکے ہیں ان سے بھی باپ، دادا کی پیدائش، اگر پاکستان ہجرت کی تھی تو اس کے کاغذات چالیس پچاس سال بعد طلب کرنا، اگر سابقہ مشرقی پاکستان سے تعلق ہے تو بنگلہ دیشی قرار دینا اور صرف دو چار ہزار رشوت کے ذریعے سارے اعتراضات ختم کرکے ایجنٹ سے شناختی کارڈ بنوانے کا راستہ دکھانا۔ یہ ہے نادرا کا نادر شاہی طریقہ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کراچی اس کا خصوصی نشانہ ہے جہاں مشرقی پاکستان سے آنے والے پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان سے بہت پہلے سے مقیم بنگالی، تین چار نسلوں سے آباد پختون یا افغان رہتے ہیں۔ نادرا کا شکار وہ لوگ بھی ہوجاتے ہیں جو اورنگی، فرنٹیئر کالونی یا اس کے قریب رہتے ہیں۔ انہیں بھی مشرقی پاکستانی، پختون افغان یا غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تو مسلسل پانچ چھ مرتبہ شناختی کارڈز کی تجدید کراچکے ہیں لیکن ان کو بھی تنگ کیا جارہاہے۔ حالانکہ دستور پاکستان کے تحت ہر پاکستانی شناختی کارڈ کا حق دار ہے لیکن نادرا نے مشرقی پاکستان کے سقوط کے ذمے داروں کو تو کچھ نہیں کہا وہاں سے پاکستان آنے والوں کو بنگلہ دیشی بنانے کی ٹھان لی ہے۔ جب کہ نادرا کے دفاتر پر شناختی کارڈ بنوانے اور تجدید کرانے کے لیے جو شرائط یا ضروری ہدایات لکھی ہیں وہ اس طرح نہیں جس طرح نادرا کا عملہ طلب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 1971 میں اگر کسی کے دادا مشرقی پاکستان سے اس لیے پاکستان آگئے تھے کہ پاک فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور پاکستانی حکومت نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا ہے تو اس سے اس شخص کے دادا کی پاکستانیت کیسے مشکوک ہوگئی۔ پھر 1971میں قومی شناختی کارڈ اس وقت کے ضوابط کے مطابق مکمل تصدیق کے بعد بنائے جانے لگے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نادرا کا قیام عمل میں آیا۔ سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوگیا۔ پشاور میں مشین پر انگوٹھا رکھیں تو کراچی کے شناختی کارڈ کی خبر ملتی ہے۔ امریکا میں بھی انگوٹھا یا انگلی کا نشان پاکستان کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والوں کا ریکارڈ سامنے لے آتا ہے۔ یہ اچانک کیا ہوگیا کہ نادرا کے دفاتر میں پاکستانیوں ہی کو شناختی کارڈ سے محروم کیاجانے لگا۔ ایک ایسے ہی دفتر میں جب 1976 سے مسلسل شناختی کارڈ بنوانے والی خاتون سے کارڈ کی تجدید کے موقع پر یہ کہا گیا کہ اس بات کا ثبوت نہیں مل رہا کہ آپ پاکستانی ہیں اور اب تک کے یہ شناختی کارڈ اصلی ہیں تو اس افسر سے پوچھ لیا گیا تھا کہ کیا ملا اختر منصور کا کارڈ آپ نے بنایا تھا۔ اس سوال کے فوراً بعد میٹرک کی سند پر معاملہ ٹل گیا۔ اس طرح کے سیکڑوں کیسز روزانہ کراچی بھر میں ہورہے ہیں۔ کہیں دھونس دھمکی تعلقات اور زیادہ تر رشوت۔ شناختی کارڈ کی فراہمی حکومت پاکستان کی آئینی ذمے داری ہے اور نادرا تو اس آئینی حق سے لوگوں کو محروم کرکے آئین شکنی کی مرتکب ہورہی ہے۔ ایک مبہم جملہ نادرا کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی دستاویز ضروری ہو تو وہ بھی طلب کی جاسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تسلسل سے شناختی کارڈ بنانے اور تجدید کرانے والوں سے یہ کیوں کہا جارہاہے کہ آپ کے پاکستانی ہونے کی تصدیق نہیں ہورہی۔ اور جب کوئی کسی اہلکار یا ایجنٹ کے ذریعے شناختی کارڈ بنوالیتا ہے تو سارے اعتراضات کہاں جاتے ہیں؟ ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ کراچی و حیدرآباد جہاں کے عوام نادرا کی غیر قانونی حرکات کا شکار ہیں یہاں سے منتخب ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹرز کیا کررہے ہیں؟ انہیں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن وہ لندن، ایم کیو ایم پاکستان، کمال اور عامر خان کے تحفظ یا مفادات کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔اس صورت حال میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی جانب سے شہریوں کو درپیش یہ اہم مسئلہ اٹھانااور ارباب اقتدار کی آنکھیں کھولنے کے لیے دھرنے کااہتمام کیاجانا یقینا خوش آئند ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی اب عوامی سطح پر اپنی پذیرائی کو یقینی بنانے کے لیے کمر کس چکی ہے، کاش دوسری سیاسی پارٹیوں خاص طورپر کراچی کے شہریوں کاٹھیکیدار ہونے کے دعویدار رہنمابھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انھیں پورا کرنے پر توجہ دیں۔ارباب حکومت خاص طورپر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو نواز شریف کی صفائیاں پیش کرنے سے وقت نکال کر اس عوامی مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے اوراس کا بھی نوٹس لینا چاہئے کہ پاکستانیوں کو شناختی کارڈ سے محروم کیوں کیا جارہاہے؟۔