عہدِ نو
شیئر کریں
نئے عہد کا گجر بج گیا! شعبدہ بازی کا دور تمام ہوا۔ گردوپیش میں ایک سرشاری کی کیفیت ہے ۔
وقت ایک مختلف رو میں بہتا ہے!نوازشریف تاریخ کی ہی نہیں وقت کی بھی مخالف سمت میں کھڑے ہیں ۔روحِ عصر اُن سے اُوبھ گئی۔وہ عوامی رہنما کہلانے پر مُصر ہے۔ مگر اُن کے نقش قدم جی ایچ کیو کے چار نمبر دروازے پر اُبھرے رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز اپنا سب سے بڑا سجدۂ سہو کررہا ہے۔ تاریخ سنور رہی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنا فیصلہ صادر کردیا۔ انتخابی اصلاحات کے مقدمے میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کسی بھی نااہل شخص کو سیاسی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا۔ نکتہ بالکل واضح ہے کہ ایک نااہل شخص اگر پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا تو وہ کیسے کسی جماعت کی سربراہی کرسکتا ہے؟عدالت کے سامنے سوال تھا کہ بنیادی حقوق میں اخلاقیاتِ عامہ(Public morality)کا کوئی تناظر بنتا ہے یا نہیں۔ عدالت نے واضح کردیا کہ بنیادی حقوق میں اخلاقیات ِعامہ کا التزام رہے گا۔ اس کا قانونی اثر یہ پڑا کہ آئین کی دفعہ 203 کو اب دو دیگر دفعات 62اور 63 کے تحت دیکھا جائے گا۔ اس تشریح نے امکانات کی ایک نئی دنیا کو آباد کردیا ہے۔ ہمارا گردوپیش بدل سکتا ہے۔ ایک ایسے قانونی سماج کا خواب جہاں دولت راج نہ کرتی ہو، جہاں اقتدار اشرافیہ کی دہلیز پر سجدہ ریز نہ رہے۔ جہاں عام لوگ حکمران کے کُرتے کا حساب مانگ سکیں۔ اور حکمران کے ماتھوں پر تیوریاں نہ چڑھتی ہوں۔ انسانی سماج اگر جوبداہی کے احساس سے خالی ہو جائے تو وہاں انسان نہیں حیوان حاکم بن جاتے ہیں۔ ہمارا حال مختلف نہیں۔ مگر نوازشریف ایک اور گیت الاپ رہے ہیں۔ حکومت کے لیے ہی نہیں ، سیاسی جماعت کی قیادت سے بھی نااہل نوازشریف!!
ولیم ایورٹ گلیڈ اسٹون اُن پانچ برطانوی وزرائے اعظم میںشامل تھے جنہوں نے وزیراعظم کے طور پر سب سے لمبا عرصہ گزارا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں اُن کی وزارت عظمیٰ کا عرصہ بارہ برس اور 126دنوں پر محیط رہا۔ یہ فقرہ اُن سے ہی منسوب ہے جسے ایک لہکتا حوالہ بن کرانصاف کے چہرے کوتاریخ کے دورام میں اُجالناہے:
’’ Justice delayed is justice denied.‘‘
مگر یہی برطانوی وزیراعظم ایک فقرے سے بھی دوچار ہوا جو تب زباں زدِ عام تھا:
’’اوپر سے آکسفورڈ اندر سے لیور پول‘‘۔
مراد اس فقرے سے ہے ’’ بظاہر عالم لیکن اندر سے تاجر‘‘۔ نوازشریف کے باب میں یہی مضمون ہے۔علم وغیرہ کی کھکھیڑوں میں وہ کیا پڑتے ،باہر سے ایک سیاست دان کے طور پر بروئے کار آتے ہیں مگر ایک تاجر کے علاوہ کچھ نہیں۔ نوازشریف اقتدار کی گھمن گھیریوں میں اپنا رسوخ بڑھا تے بڑھاتے اب ریاست تک سے اوپر اُٹھنے لگے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جن کی انا کے سامنے پاکستان بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ہموار اور استوار انسانی معاشروں میں افراد نہیںادارے اور اُصول حکمران ہوتے ہیں۔ مگر حیوانی معاشروں میں انسان اداروں اور اُصولوں پر بھی حکمرانی چاہتے ہیں۔ نوازشریف ایک ایسا ہی کردار ہے جس سے زمیں بیزار ہوئی۔ سسلین مافیا کے الفاظ شریف خاندان کو بہت کَھلتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وضاحت کی ،یہ لفظ ہم سے منسوب کیا گیا۔ مگر یہ کون لوگ تھے۔ گاڈ فاڈر کا ناول بتاتا ہے : سسلین لوگوں نے حلف اُٹھایا ہواتھاکہ ایک قانونی معاشرے کے متوازی اُن کی اپنی سفاکانہ حکومت ہوگی‘‘۔کیا ہم مختلف ماحول میں ہیں؟ دائیں بائیں موجود سیاسی جماعتوں کے حاشیہ برداروں کو توچھوڑ یے ! بڑے بڑے تجزیہ کار، دانشور اور صاحبانِ فکرونظر بھی غرض کی غلامی میں ادنیٰ نکلے۔
ایک دولت مند اشرافیہ معاشرے کے کچھ طاقت ور عناصر سے مل کراپنے کہن سالہ سماجی اور سیاسی بندوبست رائج رکھنے پر تُلی ہے۔ یہ کھیل قانون کے خلاف ہے ۔ پھر بھی اسے ایک زبردست مہم کے ذریعے عوامی تائید کا حامل بتایا جارہا ہے۔ حکومت ، تاجر، مذہبی اشرافیہ کے چند منتخب لوگ اور ذرائع ابلاغ مل کر عوام کی سوچ کو قابو رکھنے میں کوشاں ہے۔ مگر وقت ایک مختلف رو میں بہتا ہے۔ نوازشریف کے حق میں ایک ایسا بیانیہ دولت کی ریل پیل میں مستحکم کیا گیا کہ عدالتی فیصلوں کو عوامی تائید نہیں مل سکی۔سیاسی جماعت اب بھی برقرار ہے۔ اور نون دراصل نوازشریف کے علاوہ کچھ نہیں۔اب وہ شخص عدالتوں میں رسوا ہوتا ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے نوازشریف کے لیے یہ کہتا پھرتا تھا کہ اگر نوازشریف حکومت میں نہ آئے تو پاکستان کا کیا بنے گا؟اصل سوال ان لوگوں کا دوسرا ہے کہ اگر نوازشریف حکمران نہ رہے تو ہمارا کیا بنے گا؟درحقیقت یہ ایک مختلف پاکستان ہے جسے روایتی ذرائع ابلاغ سے کوئی سروکار نہیں۔ جسے معلومات کے لیے اب دوسرے ذرائع میسر ہیں۔ مسلم لیگ نون ابھی تک اقتدار میں ہے ۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر وہ برقرار رہے گی اس کا فیصلہ ابھی نہیں چند ہفتوں میں ہوگا۔ جب نگراں حکومت قائم ہو جائے گی اور نئی سیاسی صف بندیاں ہونگیں۔پنجاب میں نوازشریف کی عوامی حمایت کا حقیقی تجزیہ بھی تب ہوگا۔ ابھی بہت سے فیصلے آنے باقی ہیں۔ جو نوازشریف کے بارے میں ایک حتمی رائے متعین کریں گے۔جو کل تک کسی اور کے ساتھ تھے، نوازشریف کے ساتھ کل کیوں ہوں گے، جب وہ اُن کے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو جائیںگے۔ ایک نہیں کئی ایک وزراء بھی امید سے اِدھر اُدھر تاک جھانک کر رہے ہیں کہ
کوئی تو ہو جو میری جڑوں کو پانی دے
آج کا نوازشریف 1999 سے مختلف ہے۔ تب عمر نے اُن کے مستقبل کی امید کو چاٹا نہ تھا۔ایک حرص ہے جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ مگر ارسٹھ (68)برس میں آتش کہاں جوان رہتا ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ ذرائع ابلاغ کی چکاچوند جلوہ گاہ سے نکل کر اب عملی میدانوں میں امتحان کے لیے پیش ہوگا۔ یہی نہیں ، اُن کی عوامی تائید کا بھی درست اندازا لگانے کا ٹھیک وقت سامنے کھڑا ہے۔ اُنہیں سب سے پہلے اُس جماعت کو سنبھالنا ہے جس کی وہ صدارت کے اہل نہیں رہے۔ یہ کیسا جبر ہے کہ ایک شخص جو پارٹی صدارت کا اہل تک نہ رہے، اُ س کے بارے میں یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ نون اُن کے سوا کچھ نہیں۔یہ سیاست دان نہیں دیوتا ہیں۔ یہ پارٹیاں نہیں پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔اوریہ عوام نہیں، ان کے کنزیومرز ہیں۔ تب ہی تو عدالتی فیصلوں کے سامنے یہ اتنے جری ہوتے ہیںکہ ساتھ ہی اعلان کرتے ہیںکہ تم ہمارا کیا بگاڑ لو گے؟
جمہوریت ایسی شعبدہ بازیوں کے ساتھ کبھی اعتبار اوروقار نہ پاسکے گی!نوازشریف مختلف سمت پر کھڑے ہیں اور وقت دوسری سمت میں تیزرفتاری سے بہہ رہا ہے۔