میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

منتظم
جمعرات, ۱۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
اپ سیٹ کھیل کا ہو یا سیاست کا ، اصل شکست ان تجزیہ کاروں کی ہوتی ہے جو پورے وثوق کے ساتھ کسی کی شکست اور کسی کی فتح کی پیش گوئی کر رہے ہوں ۔ اپ سیٹ کے دھماکوں کا اصل سبب وہ خاموش حقائق ہوتے ہیں جنھیں تجزیہ کار اور ماہرین غیر اہم سمجھ رہے ہوتے ہیں یا وہ حقائق سرے سے ان کی نظروں میں ہی نہیں آپاتے ۔ کھیلوں میں کھلاڑیوں کی چھپی ہوئی صلاحیتیں اچانک نمودار ہو کر اپ سیٹ کا سبب بنتی ہیں اور سیاست و سماج میں تیزی سے بدلتے ہوئے حقائق کو نہ سمجھنے کے باعث بھی غلط پیش گوئیاں کی جاتی ہیں اور پھر نتائج ہر ایک کے لیے حیران کن اور ناقابل یقین ہوتے ہیں ۔ امریکی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے دنیا کے بڑے بڑے میڈیا گروپس اور ان سے وابستہ نامور اور بین الاقوامی ماہرین کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی میڈیا کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا کر مکھی پر مکھی مارنے والے دیسی ماہرین بھی اس صورتحال میں بے نقاب ہوگئے ہیں جنھوں نے پاکستان میں ایسی فضاءبنادی تھی کہ لگتا تھا کہ ہیلری کلنٹن کی فتح اتنی یقینی ہے کہ امریکی انتخابات کی حیثیت محض رسمی کارروائی کی ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا امیج اعتدال پسند امریکیوں میں واقعی اچھا نہیں تھا ۔اصل بات یہ تھی کہ جمہوریت ، انسانی مساوات ، باہمی احترام ، مذہبی ہم آہنگی ، برداشت اور انسانی حقوق کا جو سبق طویل عرصے سے امریکیوں کو پڑھایا جا رہا تھا ۔ امریکی عوام پالیسی سازوں کی منافقت کو سمجھ گئے تھے کہ اپنے مفادات کے لیے دنیا کے کسی ملک میں جمہوریت کا خون کرنا، کہیں نفرتوں اور تعصبات کو فروغ دینا، کہیں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے کلچر کو اسپانسر کرنا ،اپنے مفادات کے لیے مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی خطوں کو بدترین بد امنی کا شکار کر کے انسانی حقوق کو ملیا میٹ کرنا ، افغانستان اور عراق سمیت دیگر ممالک میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا ، عام شہریوں ، عورتوں اور بچوں پر بمباری سے گریز نہ کرنا جیسے اقدامات یعنی ہمیں پڑھایا کچھ جاتا ہے اور ہمارے ووٹوں سے بننے والی حکومتوں کا عالمی کردار کچھ اور ہوتا ہے ۔ امریکی عوام نے خود کو اس منافقت سے نکالا اور کھل کر اس شخص کی حمایت کردی جو منافقت کرنے کے بجائے اعلانیہ وہی سب کچھ کرنے کے دعوے کر رہا تھا جوڈیمو کریٹک گورنمنٹ گزشتہ آٹھ سالوں سے عملاً کرتی رہی تھی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان امریکیوں کی آواز بنا جو منافقت کی روایتی سیاست سے تنگ آچکے تھے ۔ جو عراق پر امریکی حملوں کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے اور ان کی ایک نہ سنی گئی جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی منافی امریکی پالیسیوں پر ناخوش تھے لیکن ان کے احساسات کا قطعی خیال نہیں رکھا گیا ۔ جو چاہتے تھے کہ امریکا بین الاقوامی تنازعات میں ٹانگ نہ اڑائے لیکن ان کی رائے کا احترام نہ کیا گیا۔ حالیہ الیکشن کے غیر متوقع نتائج اس بغاوت کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہےں جو گزشتہ کئی سالوں سے امریکی عوام کے ذہنوں پر پرورش پا رہی تھی ۔
مایوس آدمی خودکشی پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے اگر امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر لیا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ویسے ٹرمپ کوئی اتنا خطرناک آدمی بھی نہیں کہ اس سے ڈرا جائے، مثال مشہور ہے جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ۔ بلاشبہ اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے لیے جن عزائم کا اظہار کرتے رہے ہیں اور دین اسلام کے حوالے سے جن منفی خیالات کے حامل ہیں وہ مسلمانو ںکے لیے اتنے خوش آئند نہیں، البتہ تسلی بخش بات یہ ہے کہ اب دنیا بھر کے مسلمانوں کا واسطہ ایک ایسی سپر پاور سے پڑنے جا رہا ہے جسکا سربراہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا ۔ امت مسلمہ کے لیے یہ معاملہ اس اعتبار سے قدرے بہتر ہے کہ اب انھیں امریکا کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے کسی قسم کے الجھاﺅ کا سامنا نہیں ہوگا وہ پوری احتیاط کے ساتھ اپنی پالیسیاں بنا سکیں گے ۔
ذرا گزشتہ تین عشروں میں بحیثیت سپر پاور امریکا کا جو کردار رہا اسکی طرف نظر ڈالیں ۔ کیا امریکا مکافات عمل کا شکار ہونے جا رہا ہے ، دنیا کے ایک وسیع خطے میں رہنے والے کثیر انسانوں میں انتہا پسندی ، عدم برداشت ، تعصب اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بننے والا امریکا کیا آج خود بھی ان مہلک انسانی امراض کا شکار ہو گیا ہے ؟ انڈیا جیسی بڑی جمہوریت میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ دنیا میں تعلیم کے پردے میں جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔ تنگدلی اور کم ظرفی کی جو آگ تیسری دنیا میں لگائی گئی تھی، اس کے شعلے اب امریکا اور ترقی یافتہ دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے بے چین ہیں ۔ یہ نتیجہ ہے اس منافقت کا جو دنیا کی بڑی طاقتیں کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے امن ، انصاف ، انسانی حقوق کے باہمی احترام ، ہمدردی ، محبت ، رواداری ، برداشت اور اعتدال پسندی جیسے مقدس لفظوں کی بے توقیری اور بے حرمتی کی انتہا کردی۔ انھوں نے اپنے دشمنوں کو بھی دھوکا دیا اور اپنے دوستوں کو بھی ۔انھوں نے اپنے عوام کو بھی نہیں بخشا ، اسی لیے اب عوام ان کے خوبصورت دعووں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ دنیا میں انتہا پسندی جس تیزی سے پھیل رہی ہے اس پر میر کا یہ شعر قارئین کی نظر
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں