کنٹرول لائن پر کشیدگی میں اضافہ
شیئر کریں
شہزاد احمد
سید علی گیلانی نے کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کنٹرول لائن پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشیدگی بڑھائی جا رہی ہے جسکا مقصد کشمیر کو ایک سرحدی تنازعے کے طور پر پیش کرنا اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا ہے۔ کشمیرکوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے بلکہ کشمیری عوام 1947 ء سے بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں جبکہ بھارت ان کی جد وجہد کو طاقت سے دبانے کی کوشش کر رہاہے۔
سید علی گیلانی نے بھارتی وزیر داخلہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان پر تبصرہ کرتے کہا کہ بھارت طاقت کے زعم میں مبتلا ہے اور وہ دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے دوسروں کو مرعوب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک ایسے دور میں جب دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں ،ایک معمولی چنگاری بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ جنگ کو ہوا دینے کے بجائے خطے میں موجود تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے جسے کشمیریوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ہرگز قائم نہیں ہوسکتا۔ بھارتی حکام کو چاہیے کہ وہ دھمکیوں کے بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرے کرے۔ مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان اسی مسئلے کی وجہ سے اب تک متعدد جنگیں ہوئیں لیکن یہ تنازعہ جوں کا توں ہے۔ اس مسئلے کے حل میں بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی بنیادی رکاوٹ ہے اور اگر بھارتی حکمران زمینی حقائق کو قبول کرنے کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں تو کشمیر سمیت سارے مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔
کنٹرول لائن پر سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی بھی مسلسل بھارت کی جانب سے کی جارہی ہے اور وہ بدمستی میں اپنا ڈرون بھی پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کرچکا ہے جسے پاک فضائیہ کے مشاق طیارے نے اسی وقت مار گرایا‘ اس کیباوجود مودی سرکار پاکستان پر سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور بھارت کی جانب سے فائرنگ کا الزام عائد کرکے اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر پارلیمانی امور نے پچھلے تین دنوں کے دوران کنٹرول لائن پر ہونیوالے جانی نقصانات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کیے گئے اس اعتراف کے تحت اس امر کی تصدیق کی ہے کہ فائرنگ میں پہل بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے جس کا پاکستان کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بزرگ کشمیری حریت رہنماء سید علی گیلانی نے لائن آف کنٹرول پر جاری گولہ باری پر دونوں جانب ہونیوالے انسانی جانوں کے اتلاف پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک تنازعہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا‘ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کا خطرہ بدستور موجود رہے گا جبکہ دونوں ممالک کے ایٹمی پاور ہونے کے باعث یہ جنگ انتہائی تباہ کن اور خطرناک ثابت ہوگی۔
درحقیقت کشمیرہی پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ سات دہائیوں سے جاری کشیدگی کی بنیاد ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھی بھارت نے خود کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دے کر اور اس کیغالب حصہ پر فوجی تسلط جما کر پیدا کیا ہے جبکہ اس تنازعہ کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کی راہ میں رکاوٹیں بھی خود بھارت پیدا کرتا ہے ۔جس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر اور مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام کو انکی جدوجہد آزادی کے راستے سے ہٹانے کے لیے ان پر ظلم وجبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرکے اس تنازعہ کو طول دیا۔
ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات کی میز بھی ہر بار بھارت کی جانب سے ہی رعونت کے ساتھ الٹائی جاتی ہے۔ یہ بھارتی طرزعمل تو مودی سرکار کی امن کی خواہش کی خود ہی نفی کرنے کے مترادف ہے جبکہ پاکستان نے تین بار بھارتی ننگی جارحیت برداشت کرنے اور اس کیساتھ سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار ہونے کے باوجود علاقائی امن و استحکام کی خاطر بھارت کی جانب سے مذاکرات کی ہر پیشکش کا خندہ پیشانی سے خیرمقدم کیا اور اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود کہ بھارت محض عالمی دباؤ ٹالنے کے لیے مخصوص حالات میں پاکستان سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے۔ پاکستان ہر عالمی اور علاقائی فورم پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اپنی بدنیتی کی بنیاد پر گزشتہ سال اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس کی نوبت بھی نہیں آنے دی اور ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھی اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی ۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہوتا اور کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کرلیا ہوتا تو پاکستان اور بھارت کے مابین کسی قسم کی کشیدگی اور کوئی تنازعہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
اس کا کشمیر پر تسلط جمانا درحقیقت اس کی جانب سے پاکستان کی خودمختاری تسلیم نہ کرنے کا ہی عندیہ تھا جس پر وہ ہنوز عمل پیرا ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ نہیں بلکہ وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان پر بھی نگاہِ بد جمائے بیٹھا ہے۔ جس کے لیے اسکی ایجنسی ’’را‘‘ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اب ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں تو بھارت کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے ہیں اور وہ پاکستان پر نئی جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں عالمی قیادتوں اور اداروں کو بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کی اس فکرمندی والی بات پر ضرور کان دھرنا چاہیے کہ دونوں ممالک کے ایٹمی پاور ہونے کے باعث ان کے مابین جنگ انتہائی تباہ کن اور خطرناک ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے لائن آف کنٹرول پر جاری گولہ باری اور اس کے نتیجے میں دونوں طرف انسانی زندگیوں کے زیاں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک تنازعہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا، بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کا خطرہ بدستور قائم رہے گا۔
***