میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف کی ججوں پر شدید تنقیدتوہین عدالت ہے

نواز شریف کی ججوں پر شدید تنقیدتوہین عدالت ہے

منتظم
بدھ, ۱۰ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

سابق وزیراعظم وپاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف نے ایک دفعہ پھر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے نااہل کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں انتشار پیدا ہورہا ہے,عوام ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے والوں کے چہروں کو یاد رکھیں میرے خاندان کو 7 سال تک باہر رکھا گیا، والد کا انتقال ہوا تو ہمیں آنے نہیں دیاگیا ,میں یہ تمام زخم نہیں بھول سکتا لیکن قوم کی ترقی کے لیے سب بھولنا پڑتا ہے، بہت ظلم سہے لیکن جب موقع ملا عوام کی خلوص کے ساتھ خدمت کی. چکوال میں مسلم لیگ(ن)کے مرحوم رہنما چوہدری لیاقت کی رہائش گاہ پر تعزیتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ اگر آج دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے تو شاہد خاقان عباسی سے نہیں 28 جولائی کو فیصلہ کرنے والوں سے پوچھا جائے، عوام جاننا چاہتے ہیں نوازشریف نے کون سے 10 روپے چوری کیے، مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں، اتنے مہینے ہوگئے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ مجھ پر الزام کیا ہے، اگر نوازشریف نے کرپشن کی ہوتی تو آپ نکالتے ہوئے بھی اچھے لگتے، لیکن آپ نے اقامے پر وزیراعظم کو نکال دیا اور کہا کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی ،خیالی تنخوا ہ پر نکال رہے ہیں۔ نوازشریف نے مزید کہا کہ عوام ووٹ دے کر وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور 5 آدمی اسے نکال دیتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے، کیا عوام کے ووٹ کا یہی تقدس اور اہمیت ہے کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے ووٹ پھاڑ کر پھینک دے، یہ ناانصافی نہیں چلے گی اب عوام کو سامنے آنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ ملک کیسے چلانا ہے اور پوچھنا ہوگا کہ نوازشریف کو کیوں نااہل کیا گیا. نواز شریف نے کہا کہ میں نے ہمیشہ خلوص نیت سے پاکستان کی خدمت کی,کہ میرا ویژن تھا کہ ملک میں سڑکیں اور موٹرویز بننی چاہئیں، یہاں کاشتکار خوشحال زندگی بسر کریں، تاجر مزدور اور غریبوں کو بھی روزگار میسر ہو، اور اس ویڑن کے لیے ہم نے دن رات کام کیا، بجلی کے اتنے منصوبے لگائے کہ آج لوڈشیڈنگ خدا حافظ کہہ رہی ہے۔ہم نے دہشتگردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپریشن کیا اور دہشتگردی ختم کرکے رکھ دی، اگر آج دہشتگردی پھر سر اٹھارہی ہے تو پوچھو اس فیصلے سے جس نے نواز شریف کو نااہل کیا ،انھوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی کو پر امن بنایا، سی پیک شروع کیا، پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کب ہوا تھا۔

دوسری جانب سیالکوٹ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف ہمارے لیڈر تھے , ہیں اور رہیں گے .عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں جائیں گے .ہم نے ہمیشہ خدمت کی سیاست کی ہے کسی کو گالیاں نہیں دیں . ہر روز پارٹی اور لیڈر بدلنے والے پاکستان کی خدمت نہیں کرتے . سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں پولنگ اسٹیشنز پر ہوتے ہیں .2018کے انتخابات میں پاکستان کے عوام نوازشریف اور ن لیگ کے حق میں فیصلہ کرینگے۔پیر کو مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ خدمت کی سیاست کی ہے کسی کو گالیاں نہیں دیں .ہر روز پارٹی اور لیڈر بدلنے والے پاکستان کی خدمت نہیں کرتے، ہمارے لیڈر کل بھی نوازشریف تھے،آج بھی ہیں اور کل بھی وہی ہمارے لیڈر ہوں گے .ہم میں سے کوئی وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں .ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ نواز شریف جس پر بھی ہاتھ رکھتے وہیں وزیر اعظم ہوتا .ہے یہی جمہوریت کی کامیابی ہے،ہمیں امید ہے کہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان کے عوام مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے حق میں فیصلہ کریں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ملک کے مسائل حل کئے ہیں، ہم نے ان مشکلات کو حل کیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں کئے ، آج صورت حال مختلف ہے۔ موجودہ دور حکومت میں 1800 کلومیٹر سے زائد موٹر ویز بنائی گئیں. یہ تمام چیزیں ملک کی معیشت کو مضبوط کریں گی اور یہ سب پورا پاکستان محسوس کرتا ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمیں کسی قسم کی شرمندگی نہیں کیوں کہ ہم نے پاکستان کے مسائل حل کیے ہیں. سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے. جب بھی ایسا ہوا تو ان فیصلوں کو نہ تو پاکستان کے عوام نے مانا اور نہ ہی تاریخ نے اسے قبول کیا . سیاست کے فیصلے پولنگ اسٹیشنز پر ہوتے ہیں. جولائی میں عام انتخابات ہوں گے.اس میں عوام جو بھی فیصلہ کریں گے .وہ سر آنکھوں پر ہوگا .،ہمیں پورا یقین ہے کہ اگلا الیکشن مسلم لیگ (ن) ہی جیتے گی۔
اپنے خلاف عدالتی فیصلے پر نواز شریف کاچین بہ چین ہونا ایک فطری امر ہے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس عدالتی فیصلے کو اللہ کی طرف سے انتباہ تصور کرتے ہوئے نواز شریف خود اپنا احتساب کرتے اور یہ سوچتے کہ ان سے اپنے ساڑھے 4سالہ دور میں کون سی غلطیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اتنی سخت پکڑ ہوئی ہے اور انھیں اقتدار سے نکال باہر کیاگیاہے۔لیکن اپنا اور اپنے ساتھیوں کے کردار پر غور کرنے اور عدالت کو اپنی بیرون ملک املاک اور کاروبار کی تفصیلات اور اس کے لیے حاصل کی گئی رقم کے ذرائع بتانے کے بجائے انھوں نے عدلیہ کو دباؤ میں لانے کے لیے عدلیہ پر پے درپے حملے شروع کردئے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن کاالزام نہیں لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ انھوں نے آف شور کمپنی کس طرح قائم کی اس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور پاکستان سے کس طرح بیرون ملک بھیجا گیا، وہ یہ بھی نہیں بتاسکے کہ ان کے بیٹوں کی کمپنیاں ان کے دور اقتدار ہی میں منافع اور اقتدار سے ہٹتے ہی خسارے میں کیوں چلی جاتی ہیں، کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بڑے سرکاری منصوبوں کے لیے کک بیکس ان کی ان ہی کمپنیوں میں جمع ہوتارہاہے اور اقتدار سے ہٹنے کے بعد چونکہ کک بیکس کاکوئی ذریعہ نہیں رہتا تو یہ کمپنیاں خسارے میں جانے لگتی ہیں۔

نواز شریف ہر جگہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عوام کے منتخب لیڈر کو 5ججوں نے نااہل کردیا ، کیا نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ ان کو سزا دینے کے لیے ان کے حلقہ انتخاب میں جرگہ بٹھایاجاتا ،اور پھر اس ملک کے عوام ان کا گریبان پکڑ کر انھیں کسی کھمبے پر لٹکاتے ، دنیا میں ہر جگہ منتخب اور غیر منتخب تمام مجرموں کے مقدمات کافیصلہ چند جج ہی کرتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک کے حکمراں اور منتخب نمائندے کبھی بھی اپنی عدلیہ کو تنقید کانشانہ نہیں بناتے بلکہ خاموشی کے ساتھ فیصلہ قبول کرلیتے ہیں، انھیں بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادیو کوحال ہی میں عدالت سے دی گئی سزا سے سبق حاصل کرنا چاہئے یہ سزا سن کر لالو پرشاد یادیو نے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا،جبکہ لالو پرشاد یادیو اپنے صوبے میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سے زیادہ مقبول ہیں اور آج بھی ان کی ایک آواز پر لاکھوں افراد سڑکوں پر آسکتے ہیں ۔ عدالت کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرنے کے بجائے نواز شریف اپنے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے خلاف فیصلہ دینے والے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کو کھل کر دھمکیاں دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ہم نہیں چھوڑیں گے، گزشتہ روز کوٹ مومن میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نااہل قرار دئے گئے وزیراعظم نے عدالتی فیصلے کو ’’بگ شو‘‘ کہا۔ اس کے ساتھ اپنے سابقہ فیصلوں کے منفی نتائج کی وجہ سے ملک میں پیدا کی گئی مصنوعی ترقی کاملمع اترنے کو بھی انھوں نے اپنی نااہلی کے فیصلے کو ذمہ دار قرار دیا، ان کاکہناہے کہ ان کی برطرفی کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل رہا ہے،یہ کہتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ان کی برطرفی کے باوجود ملک پر ان کی پارٹی ہی کی حکومت ہے اور ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم ان کے اتنے زیادہ طابع ہیں کہ انھوں نے گزشتہ روز سیالکوٹ میں خطاب کے دوران بھی یہ کہا کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں اس ملک کے اصل وزیراعظم نواز شریف ہی ہیں اور ہم ان کی ہی کی ہدایت اور پالیسیوں پر عمل کررہے ہیں ،خود ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم کی جانب سے اس وضاحت کے بعد اب ان کو یہ کہتے شرم آنی چاہئے کہ ملک میں موجود انتشار اقتصادی سست روی کی کیفیت ان کی برطرفی کی وجہ سے پیداہوئی ہے۔ ان کے اس طرح کے بیانات پر مخالفین کا یہ اعتراض بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ اپنی برطرفی کے بعد اب وہ فوج اور اداروں کو بدنام کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں اور اپنے اثاثوں کا حساب دینے کے بجائے مجھے کیوں نکالا کا سوال پوچھ رہے ہیں۔

میاں نوازشریف کے اس طرح کے بیانات سے ظاہرہوتاہے کہ ان کو صرف اپنی وزارت عظمیٰ کی فکر ہے اور انھیں یہ احساس ہوچکاہے کہ اب اگلے عام انتخابات کے بعد بھی وزارت عظمیٰ کاہما ان کے سر پر نہیں بیٹھ سکے گا، پاناما لیکس کیس میں ان کو نااہلی کے بعد سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار اور فرسٹریٹڈ ہیں۔ وہ عدلیہ کے احترام اور اس کے فیصلوں پر اطمینان کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر نااہلیت کے فیصلے کے بعد وہ کھل کر عدلیہ پر تنقید کر رہے ہیں تحریک چلانے کے اعلانات کر چکے ہیں۔ طاقت اور عدالت کا گٹھ جوڑ توڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔اب تو عدل بحالی تحریک چلانے تلے ہوئے ہیں، گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف خاندان کے حق میں فیصلہ دیا تو اس پر لیگی حلقوں کے ہاں جشن کا سماں تھا مگر اسی روز چند گھنٹے بعد عمران خان اور جہانگیر کے خلاف نااہلیت کے کیس میں عمران خان کو نااہل قرار نہ دینے پر عدالت کو پھر شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا، یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ میاں نوازشریف نے اپنے گزشتہ روز کے جلسے میں اس کا اظہار بھی کیا۔ میاں نوازشریف اور ان کے کچھ اتحادی عدلیہ کے بارے میں جس طرح کے سخت لب و لہجہ کا ا استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کی رائے میں یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے ہی لب و لہجے پر مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی پر توہین عدالت کی فرد جرم لگ چکی ہے۔ میاں نوازشریف کا فیصلے کو بگ شو کہنا تو اتنا سنگین نہیں ہے مگر ’’5ججوں کو جواب دینا پڑے گا۔ انہیں ہم نہیں چھوڑیں گے‘‘ یہ لب و لہجہ پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پرتین مرتبہ رہنے والے لیڈر کے شایان شان نہیں۔ملک میں آج بھی مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ پارٹی پر میاں نوازشریف کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کی مرضی و منشاکے برعکس کوئی پالیسی بن سکتی ہے نہ تبدیل ہو سکتی ہے۔ پوری کابینہ ان کو جواب دہ ہے۔ ایسی صورت میں اگر ترقی کی رفتارآہستہ ہو رہی ہے۔ ملک میں انتشار پھیل رہا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے تو اس کے جوابدہ وزیراعظم کیوں نہیں ہیں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز صادق آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے سے ترقی رک گئی۔ یہ ان کی طرف سے خود اپنی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار ہے۔ میاں نوازشریف اور خاقان عباسی جیسے لیڈر اگر نااہلیت کے باعث ملکی ترقی رکنے اور انتشار میں اضافے کی بات کریں گے تو یہ مخالفین کے لیے قبل از وقت الیکشن کے انعقاد کا خود فراہم کردہ جواز ہوسکتا ہے۔
آج جب سرحدوں کی صورتحال قابل رشک نہیں۔ امریکا الزامات لگاتا اور جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں سیاسی استحکام اور وسیع تر قومی اتحاد ناگزیر ہے مگر ہماری لیڈر شپ صورتحال کا ادراک کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے لیے نفرت آمیز لہجہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ برداشت برد باری اور تحمل کا فقدان ہے۔حالات قومی لیڈر شپ سے سیاسی پختگی کے اظہارکے متقاضی ہیں ملک و قوم کسی طور پر نفرت انگیز رویوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں