لشکری رئیسانی بی این پی میں شامل
شیئر کریں
آخرکار نوابزادہ لشکری رئیسانی بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہو ہی گئے۔ لشکری رئیسانی بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کے والد نواب میر غوث بخش رئیسانی 29دسمبر1971سے13 اپریل1972ء تک بلوچستان کے گورنر رہے۔ چیف آف سراوان کا منصب ان کے خاندان کے پاس ہے۔ گویا یہ گھرانہ قبائلی اور سیاسی دونوں لحاظ سے صوبے کے اندر نمایاں ہے۔ والد میر غوث بخش رئیسانی رند قبائل کے حملے میں قتل ہوئے۔ اس کے بعد بڑے بیٹے کی حیثیت سے رئیسانی قبائل کی نوابی کی پگڑی نواب اسلم رئیسانی کے سر پر رکھ دی گئی۔ اس طرح وہ سراوان کے چیف بھی بنے۔ نواب اسلم رئیسانی2008ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے اور پانچ سال مکمل کرلیے ۔ حالانکہ وہ آصف علی زرداری کے نا پسندیدہ بن گئے تھے۔ یہ اختلاف سیاسی تھا۔ نواب اسلم رئیسانی ان کی تابعداری نہیں کرتے تھے۔ اپنی سوچ کو جہاں درست سمجھتے فوقیت دیتے تھے۔ گویانواب رئیسانی کو مسائل مشکلات کا سامنا اپنی جماعت کے اندر سے رہا۔ جمعیت علماء (ف) بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے آخر تک ساتھ دیا۔ جبکہ پانچ سال وزارتوں کے مزے لینے والے بہت سارے عین وقت پر ساتھ چھوڑ گئے۔
گورنر راج نافذ ہوا تب بھی نواب رئیسانی مذکورہ جماعتوں کے تعاون و اتحاد سے وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی نہ ہوئے ۔پشتونخوامیپ ،نیشنل پارٹی نے بھی بغض معاویہ میں گورنر راج کی حمایت کی۔ عوامی نیشنل پارٹی نواب رئیسانی کی کابینہ میں شامل تھی اور گورنر راج کی حامی بنی ۔غرض لشکری رئیسانی پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر تھے۔ پارٹی کے لیے بہت کام کیا۔ 2009ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ لشکری رئیسانی اس دوران بلوچستان کے مسائل پر بھی بولتے رہتے تھے، گویا بلوچستان کے ایشوز پر اپنی جماعت سے اختلاف رکھتے تھے ۔ صوبے اور مرکز کے اندر پیپلز پارٹی کے لوگ برابر مسائل بھی پیدا کرتے رہے۔ اس طرح ان کا پیپلزپارٹی کے ساتھ مزید نبھاممکن نہ رہا۔ پارٹی کو خیر باد کہا، یوں سینیٹ کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوگئے۔ مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ وابستگی رہی یوں مسلم لیگ نواز سے بھی علیحدہ ہوگئے۔ جس کے بعد بلوچستان پیس فورم اور دوسری سیاسی، علمی و سماجی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ بلآخر 24 دسمبر 2017ء کو بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کا حصہ بن گئے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی، میر غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ بلوچستان کی چھٹی اسمبلی یعنی1993ء میں بننے والی اسمبلی کے پی بی24بولان سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلیٰ تھے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی کے پاس وزارت کا قلمدان بھی تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حلقے سے انتخاب لڑیں گے ۔ اگر قیاس کیا جائے تو لشکری رئیسانی کے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی جو کہ علیل ہیں اور ان دنوں کوئٹہ ہی میں مقیم ہیں، نے بھی وڈھ جاکر بزرگ بلوچ قوم پرست رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کی۔
27دسمبر2017 کو قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے نواب اسلم رئیسانی کے خلاف انویسٹی گیشن کی منظوری دیدی۔اس میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ ان پر غیر قانونی طور پر 81کروڑ روپے حکومت بلوچستان سے Compensationکی مد میں وصول کرنے کا الزام ہے۔ واضح ہو کہ یہ رقم مہر گڑھ کے متاثرہ افراد کے لیے لی گئی تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب سردار یار محمد رند وفاقی وزیر تھے تو رند قبائل نے مہر گڑھ جوکہ رئیسانی قبائل کا علاقہ ہے پر حملہ کیا تھا۔ وہاں زراعت و املاک کو نقصان پہنچایا۔ چنانچہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو مہر گڑھ کے نقصانات کے ازالہ کی خاطر رقم لی گئی۔ نیب سمجھتی ہے کہ رقم کی تقسیم میں بددیانتی ہوئی اور رقم حقیقی متاثرین میں تقسیم نہیں کی گئی۔ بہر کیف حقائق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔ بلوچستان کے اندر2018ء کے عام انتخابات کا منظرنامہ واضح نہیں ہے۔ تقریباً سب ہی بڑی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، جمعیت علماء اسلام (ف)، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور بہت ساری شخصیات سرگرم ہیں۔ مسلم لیگ نواز سے وابستہ کئی وزراء اور اراکین اسمبلی سیٹی بجنے کے منتظر ہیں۔ یعنی یہ حضرات ہوا کا رُخ دیکھ رہے ہیں۔
27دسمبر 2017 کی رات کوئٹہ کے سرینا ہو ٹل میں بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ جس میں چند صحافیوں کو بھی مدعو کیاگیا تھا۔ راقم ان میں شامل تھا۔ ہمارے ساتھ کھانے کی میز پر مسلم لیگ کے ایک صوبائی وزیر صاحب کچھ دیر آکر بیٹھ گئے۔ ان کے پاس اہم وزارت ہے۔ چونکہ تعلق برادرانہ ہے اس لیے باتیں بھی کھل کر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فضاء مسلم لیگ نواز کے حق میں نہیں ہے۔ بلوچستان کے بہت سارے لیگی حالات کا رُخ دیکھ رہے ہیں۔ اپنی ذات کے حوالے سے بتایا کہ اگر منظر نامہ بد ل گیا تو وہ خود بھی مسلم لیگ نواز کا ساتھ نہیں دینگے۔ اس وزیر نے یہ بھی کہا کہ سینیٹ الیکشن کے امکانات بھی معدوم ہیں۔ اور ممکن ہے کہ عام انتخابات بھی وقت کی بجائے تاخیر سے منعقد ہوں۔ صوبے کی مخلوط حکومت مسلم لیگ نواز، پشتونخواملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی اور ق لیگ پر مشتمل ہے۔ مگرحکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا مسلم لیگ نواز سے تعلق واجبی و مبہم نوعیت کاہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) مسلم لیگ نواز سے اختلافات کے باوجود یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی مخالف ہے۔ یہی سوچ نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی بھی ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوریت کش اقدام کی مخالف ہیں۔ تاہم بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جگہ بنانے کے لیے کسی اور کی راہ تک رہے ہیں۔اس صف میں میر ظفر اللہ جمالی بھی شامل ہیں، جو پیرانہ سالی میں بھی ہوس کا شکار ہیں۔ دو بار قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران اپنی صحت کی خرابی پر کہا کہ ممکن ہے کہ یہ ان کی آخری تقریر ہو ۔ جمالی صاحب نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اور واضح الفاظ میں آمریت کو دعوت دی۔ بہر حال کھچڑی ضرورپک رہی ہے، دیکھتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے ۔ اگر بات بلوچستان کی کی جائے تو آمرانہ قوتوں کی تھالی چاٹنے والے بس دن گن رہے ہیں کہ کب منتخب حکومت کی کایا پلٹ جائے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو طاقتور نہیں سمجھتے ،کیونکہ ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کررہے ۔ اگر ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں تو پارلیمنٹ مضبوط اور طاقتور ہوسکتی ہے۔ مزاحمت کرنا پڑے گی ، چاہے لاپتہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔‘‘