فوج اور قوم متحد ہو کر جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیگی
شیئر کریں
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان کیخلاف یکطرفہ کارروائی کی گئی تو فوج اور قوم متحد ہو کر جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیگی‘ ہم ہر قیمت پر ملک کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے گزشتہ روز پریس بریفنگ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سینٹ کو دی گئی بریفنگ کے حوالے سے وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق کے بیان کو غیرذمہ دارانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ بیان غیرضروری اور آئین کیخلاف ہے جس پر ہمیں تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف یا مریم نواز کے پاس اپنے خلاف کارروائی میں اسٹیبشلمنٹ کے ملوث ہونے کے کوئی ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگلا برس بہت اہم ہے کیونکہ اس سال ملک میں انتقال اقتدار ہونا ہے۔ انکے بقول عام انتخابات بہرصورت دستور کے مطابق شیڈول کے تحت منعقد ہونے چاہئیں۔ انہوں نے پریس بریفنگ میں ملک کی داخلی و بیرونی سلامتی‘ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اور بعض سیاسی و دستوری امور کا احاطہ کیا۔ وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق کے اس بیان پر کہ آرمی چیف تو جمہوریت کے حامی ہیں مگر انکے ماتحتوں کو بھی انکی پیروی کرنی چاہیے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خواجہ سعدرفیق کا یہ بیان غیرذمہ دارانہ اور غیرضروری ہے جس پر ہمیں اس لیے تشویش ہے کہ انہوں نے فوج کی پوری چین آف کمانڈ کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا بیان آئین کے بھی خلاف ہے کیونکہ آئین بعض اداروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی ایک منظم اور آئین کے تحت چلنے والا ادارہ ہے۔ تمام شہریوں کو چاہیے کہ وہ آئین کا احترام کریں کیونکہ ایسے معاملات اٹھائے جائینگے تو پھر بہت سارے ارتعاش پیدا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے ایک اشارے پر ساری فوج وہیں دیکھنا شروع ہوجاتی ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے پاکستان میں یکطرفہ کارروائیوں کے عندیہ پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے مگر ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکا‘ بھارت گٹھ جوڑ اور اسکی بنیاد پر امریکا اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر کارروائی کیلیے دی جانیوالی دھمکیوں سے آج ملک کی خودمختاری اور سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہیں چنانچہ ملک کی سرحدوں کے محافظ ہونے کے ناطے جہاں پاک فوج کے ادارے کا ہمہ وقت چوکس اور مستعد ہونا ضروری ہے وہیں اتحاد و یکجہتی کے ساتھ قوم کا پاک فوج کے شانہ بشانہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو قومی اتحاد و یکجہتی میں کوئی جھول یا کمی نظر نہ آئے اور عساکر پاکستان کی دفاع وطن کے تقاضے نبھانے والی صلاحیت و مشاقی ان پر لرزہ طاری کیے رکھے۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دفاع وطن اور دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے والی عساکر پاکستان کی استعداد و صلاحیت کی پوری دنیا قائل ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی شورش پر قابو پانے اور امن قائم کرنے کیلیے اقوام متحدہ کی امن فورس میں موجود پاک فوج کے دستے پر ہی تکیہ کیا جاتا ہے جبکہ پاک فوج نے بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی 65ء کی جنگ میں بری‘ بحری اور فضائی ہر شعبے میں دشمن کو دنداں شکن جواب دیا اور اسکے لاہور فتح کرنے کے خواب چکناچور کردیئے۔ اسی تناظر میں قوم کے دلوں میں پاک فوج کا احترام اور اس کیلیے ہیروازم والا جذبہ موجود ہے۔
71ء کی جنگ میں دشمن کی ایک گھنائونی سازش کے باعث قوم کو سانحہ سقوط ڈھاکہ کا صدمہ برداشت کرنا اور ہزیمت اٹھانا پڑی جبکہ مشرقی پاکستان میں کورکمانڈر جنرل اے اے کے نیازی کے بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے آگے ہتھیار ڈالنے اور پاک فوج کے جوانوں اور افسران سمیت ہمارے 95 ہزار کے قریب شہریوں کے بھارتی جنگی قیدی بننے سے قوم کے سر شرم سے جھک گئے تاہم اس جنگ میں بھی پاک فوج کی مہارت و مشاقی تسلیم شدہ ہی رہی جس نے مغربی پاکستان کے میدان جنگ میں دشمن فوجوں کے ہر محاذ پر چھکے چھڑائے۔ پاک فوج کا یہی کردار اس کا طرہ? امتیاز اور قوم کا اعزاز ہے جبکہ پاک فوج آئین میں موجود اپنے کردار کو بروئے کار لا کر ہی قوم کے سامنے سرخرو ہوتی اور اعزاز و عزت پاتی ہے۔ آئین پاکستان کے فورتھ شیڈول میں دیئے گئے مسلح افواج کے حلف نامہ کے تحت دفاع وطن کے تقاضوں کی بنیاد پر ہی پاک فوج میں شامل ہونیوالے جوانوں اور افسران سے بلاامتیاز یہ حلف لیا جاتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی مکمل پاسداری کرینگے اور خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کرینگے اور پاک فوج کے رکن کی حیثیت سے دیانتداری کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرینگے۔ اسی طرح آئین پاکستان کی دفعہ 243 شق ایک اور شق 2 میں اس امر کی صراحت کے ساتھ وضاحت کردی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کا ملک کی مسلح افواج پر مکمل کنٹرول ہوگا اور وہ اسی کی کمان میں فرائض ادا کریگی اور صدر مملکت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہونگے۔
اسی طرح دوسرے ریاستی اداروں بشمول انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ کی بھی آئین پاکستان میں حدودو قیود متعین ہیں جنہوں نے آئین کے دائرے میں رہ کر ہی اپنے فرائض بجا لانے ہوتے ہیں۔ اگر ملک کے تمام ریاستی آئینی ادارے اپنے متعینہ اختیارات میں رہ کر ذمہ داریاں ادا کریں تو ملک کی ترقی‘ استحکام اور دفاع کے حوالے سے یہ مثالی صورتحال ہو۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے کسی ریاستی آئینی ادارے نے خود کو اپنے آئینی اختیارات تک محدود نہیں رکھا اور وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کیلیے کسی نہ کسی جواز کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ ہمارے عسکری ادارے کو چونکہ دفاع وطن کے تقاضوں کے ناطے اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے اس لیے وہ اسے اپنی طاقت بنا کر دوسرے آئینی اداروں پر غالب ہوتا رہا ہے۔ اس تناظر میں قوم نے ملک کے چار فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں آئین سبوتاڑ ہوتا اور منتخب جمہوری نظام کا حلیہ بگڑتا دیکھا۔ اگرچہ ایسے ماورائے آئین اقدامات کو بعض عسکری حلقوں کی جانب سے متعلقہ جرنیل کے ذاتی فعل سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے تاہم اس معاملہ میں حقیقت وہی ہے جو گزشتہ روز ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق کے ایک بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بتائی ہے کہ آرمی چیف کے ایک اشارے پر ساری فوج وہیں دیکھنا شروع ہوجاتی ہے جو وہ چاہتے ہیں۔اس بنیاد پر ہی کسی جمہوری حکومت کے مخالف سیاست دان اسے گرانے کیلیے عسکری قیادتوں سے توقعات وابستہ کرتے رہے ہیں جبکہ ماضی میں عدلیہ کا نظریہ ضرورت بھی اسی تناظر میں لاگو ہوتا رہا ہے۔
عسکری ادارے کے اس تاثر کی موجودگی میں گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینٹ کو بریفنگ کے دوران اس ادارے کے آئینی فرائض تک محدود رہنے اور جمہوری نظام کی آئین کے تقاضوں کے مطابق اطاعت کرنے اور اسے گزند تک نہ پہنچنے دینے کے عزم کا اظہار کیا تو اس سے پوری قوم کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ اب محلاتی سازشوں کا باب بند ہو جائیگا اور پاک فوج کے ازخود ترجمان بنے عناصر بھی اپنی اوقات میں آجائینگے۔ آرمی چیف کے اس بیان کے اگلے روز خواجہ رفیق شہید کی برسی تھی جس کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق نے آرمی چیف کے بیان کی تائید کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا کہ پاک فوج کے سربراہ کا وہی بیانیہ ہے جو ہم سب کا بیانیہ ہے جو ہمارے لیے اس حوالے سے بھی اطمینان بخش ہے کہ ماضی میں جمہوریت کے ساتھ باربار کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے اسی تناظر میں کہا کہ کسی کو چھوٹی چھوٹی شرارتیں نہیں کرنی چاہئیں اور ان لوگوں کو بھی آرمی چیف کے موقف کی تائید کرنی چاہیے جن پر ان کا حکم ماننا لازم ہے۔ خواجہ سعدرفیق کے اس بیان پر جس انداز اور جن الفاظ میں ترجمان پاک فوج نے ردعمل ظاہر کیا وہ اول تو قطعی نامناسب تھا اور دوسرے انکی ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کا یہ منصب بھی نہیں تھا جبکہ انہوں نے اپنے ردعمل میں یہ کہنے سے بھی گریز نہ کیا کہ ایسے معاملات اٹھائے جائینگے تو پھر بہت سارے ارتعاش پیدا ہونگے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آرمی چیف خود عسکری ادارے کا آئین کا پابند ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اور آئین کے تحت اٹھایا گیا حلف بھی عسکری ادارے کے ہر رکن سے اس امر کا ہی متقاضی ہے جبکہ عسکری ادارے نے آئین ہی کی رو سے وفاقی حکومت کی کمان میں اپنے فرائض ادا کرنے ہیں تو ترجمان پاک فوج کو ایک وفاقی وزیر کے بیان پر نامناسب تنقید کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اسی حوالے سے بیان دیا ہے کہ وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق کی تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر ترجمان پاک فوج اپنا ردعمل ظاہر کرنا ضروری سمجھیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے بھی گزشتہ روز یہی باور کرایا ہے کہ پاک فوج پر پاکستان کے تحفظ کی ذمہ داری ہے‘ وہ اس ذمہ داری کو ادا کرے تو سب سے بہتر ہے۔ خواجہ سعدرفیق نے خود بھی ترجمان پاک فوج کے بیان پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ انہوں نے فوج یا اسکے ماتحت نظام کو ٹارگٹ کیا نہ وہ اس کا تصور کرسکتے ہیں۔ملک کی سلامتی و خودمختای کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات تو افواج پاکستان سے اس امر کے ہی متقاضی ہیں کہ وہ اپنی توجہ دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھیں اور خود آرمی چیف نے بھی افواج پاکستان کی ان آئینی ذمہ داریوں کو ہی مقدم رکھا ہے اس لیے انکے ماتحت عسکری اداروں کے سربراہان کو بھی خود کو اپنی ہائی کمان کی سوچ کے تابع رکھنا چاہیے اور آئین کے تحت قائم سسٹم کے پھلنے پھولنے میں معاون بننا چاہیے۔ اگر سابق جرنیلی آمر مشرف کے فوج میں بعض سرکش عناصر کی موجودگی کی نشاندہی کرنیوالے بیان سے کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا تو خواجہ سعدرفیق کے عسکری ادارے میں ماتحتوں کو اپنے سربراہ کی سوچ کی تائید کا درس دینے والے بیان سے کیونکر ارتعاش پیدا ہو سکتا ہے۔ اندریں حالات تمام ریاستی آئینی اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر ہی فرائض منصبی ادا کرنے چاہئیں۔ اس سے کوئی ارتعاش پیدا ہوگا نہ کسی کو آئین کے تحت قائم منتخب جمہوری نظام کیخلاف کسی قسم کی محلاتی سازشوں کا موقع ملے گا۔ اگر آج حکومت اور فوج کے ترجمان سرعام ایک دوسرے کو نصیحتیں کررہے ہیں تو اس سے ہمارے وہ دشمن ہی خوش ہونگے جو ہمارے اداروں کو آپس میں لڑتا بھڑتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ (تجزیہ)