میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہماری سیاسی چالاکیاں شیروانیوں سے دوروں اور معالجوں تک

ہماری سیاسی چالاکیاں شیروانیوں سے دوروں اور معالجوں تک

منتظم
اتوار, ۳۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

محمد اشرف قریشی
یہ قوم خوب جانتی اور سمجھتی ہے کہ قومی سیاست کا فقدان ہوچکا ہے کیونکہ مسائل نے اس قدر اپنا شکنجہ ڈال رکھا ہے کہ وسائل دم توڑ چکے ہیں جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے ہمارے وطن عزیز کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے اگر کوئی بھی حکومت وسائل کی قدر شناس ہوتی تو پھرہم کو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے قوم خوشحالی کی بہاریں دیکھ چکی ہوتی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکی ہوتی لیکن یہ مفاد پرستوں اور سیاسی چمگادڑوں کی مذموم سیاست کا یہ نتیجہ نکلاا کہ قوم مقروض ہوکر رہ گئی ہے، اور غریب عوام افلاس ایسی پستی میں اترچکی ہے کہ جہاں سے بلندی اس کو دور دور تک نظر بھی نہیں آتی سیاستدانوں کی باہمی جھگڑوں اور مخالفتوں نے قوم کو تشویش کے اندھیروں میں ڈال دیا۔

یہ ملک ہے اور یہ دنیا جانتی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو اگر بخار، نزلہ اور سر میں درد ہوجاتا ہے تو وہ بیرون ملک علاج کے لیے دوڑیں لگاتے ہیں اور آج تک یہ سوال اٹھ ہی نہیں سکا کہ اگر اتنے علاج کا یقین آپ کو اپنے ملک میں نہیں ہے تو آپ خود کس مرض کی دوا ہیں اور عوام کی سہولت کا کنواں کہاں سے تلاش کیا جائے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں ان کو کوئی بیماری نہیں ہوتی ان کی مرغن غذائوں کو ڈاکٹرز چیک کرتے ہیں منرل واٹر تو کجا ان پانی کو بھی باہر سے منگوایا جاتا ہے یہ تمام ڈرامے اس لیے رچائے جاتے ہیں تاکہ ان جھوٹے اغراض ومقاصد سے بیرونی ممالک نہ صرف سیر سپاٹے کیے جائیں بلکہ عیاشیاں کی جائیں، اب ہم چلتے ہیں بیرون ملک دورے کرنے کی طرف، یہ بھی کھلا راز ہے کہ یہ دورے عیاشیاں اور کمیشنوں کے لیے ہی ہوتے ہیں ۔

ہماری موجودہ حکومت جواپنے دوراقتدارکی مدت گزارنے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن مستقل وزیر خارجہ نہ مقرر کرسکی جہاں دنیاکے تمام ممالک عالمی حالات اور معاملات پر نظر رکھنے اور اپنے ملک کے خارجہ امور کی وکالت کرنے کے لیے وزیر خارجہ سب سے پہلے قائم کرتا ہے ۔ وہیں ہمار ے موجودہ حکمرانوں نے طویل عرصے تک ایک پیرانہ سال مشیرخارجہ سے کام چلایا۔ یادرہے کہ سیکریٹریوں سے کام لینے والی حکومتوں کے پاس کامیابی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور بالآخر وہ ناکامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتی ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں صلاحیتوں کا حصول بھی نایاب ہوکر رہ جاتا ہے ہمارے ایک کشمیری قلمکار اور دانشور سکندر مغل کا ایک کالم ہماری نظر سے گزرا تھا جس کا عنوان تھا ’’کاٹھ کے گھوڑوں سے جنگیں فتح نہیں ہوتیں‘‘ انہوں نے کتنی پائے کی بات کردی تھی اور آج بھی یہی عالم ہے کہ ہمارے سیاسی بازار میں سیاسی سوداگروں کا جمعہ بازار لگا پڑا ہے اور بے ہنر اور نااہل لوگوں نے ایسا قبضہ جما رکھا ہے کہ محب وطن سے لے کر باصلاحیت لوگوں تک نایاب ہوچکے ہیں قوم کا اعتماد مجروح تو ہوچکا ہے لیکن ناامیدی کفر کے علم نے حوصلہ ضرور دیا اور قوم نے اپنے مستقبل کی روشنی کی امیدوں کے چراغ ضرور جلا رکھے ہیں ہم کس کا دامن پکڑیں اور کس سے امید وابستہ کریں البتہ عمران خان کو ہم سیاسی نوجوان اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ابھی سیاسی بڑھاپے میں نہیں آئے اگر وہ آج بھی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا گہرا مطالعہ کرکے آئندہ کے لیے اپنے سیاسی اصولوں کو ترتیب دیں تو شاید تاریخ انہیں وقت کی اہم ضرورت دے کر انہیں دیرپا قائم رکھے ورنہ شیروانیوں سے ہی گزارا کرنا ٹھہر جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں