سندھ حکومت کو توہین عدالت کا انتباہ
شیئر کریں
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ لیڈری کا شوق نہیں۔ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے۔الیکشن سے پہلے سندھ میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر کے رہیں گے۔صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی کی سنگین صورتحال اور کراچی میں صاف پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے،مجھے لیڈری کا کوئی شوق نہیں، جس کومجھ پرتنقید کرنی ہے کرلے۔ ملک کی حالت کاذمے دار ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی ادارے میں بر سر اقتدار رہا، کوئی مزدور اور غریب شہری ملک کی صورتحال کا ذمے دار نہیں۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، بنیادی حقوق کی فراہمی حکومت کا کام ہے، لیکن شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جارہا ہے، دریاؤں اور نہروں میں زہریلا پانی ڈالا جارہا ہے اور وہی پانی شہریوں کو پینے کیلیے دیا جا رہا ہے،گندگی کے ڈھیراور بیماریاں جنم لے رہی ہیں، بوتلوں میں غیر معیاری پانی فروخت ہورہا ہے، ایک نلکا لگا کر بوتل بھر کر پانی کیسے فروخت ہورہا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے اے جی سندھ سے استفسار کیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟ پانی زندگی ہے، پانی ہی صاف نہیں تو کیا زندگی رہے گی۔انہوں نے کہا سندھ حکومت پر واضح کرناچاہتے ہیں کہ توہین عدالت کا آپشن موجود ہے، ہم یہاں سے اٹھ کر نہیں جانے والے، یہ کام تو آپ اور آپ کی حکومت کو کرناچاہیے تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ کراچی میں 45 لاکھ ملین گیلن گندہ پانی سمندر میں جا رہا ہے، کیا یہ معمولی بات ہے۔اس پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو بتایاکہ کینجھر جھیل سے آنے والا پانی صاف ہے، ساڑھے چار ہزار ٹینکر یومیہ چلے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ کیا آپ ضمانت دیتے ہیں کہ ابھی کینجھر جھیل چیک کرائیں تو پانی صاف ہوگا، پانی سے صرف مٹی نکالنے کو فلٹریشن نہیں کہتے، کیا یہ پانی پاک اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی ہے اور اسباب بھی بتائے ہیں جبکہ سندھ حکومت نے واٹر کمیشن کی رپورٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی اس لیے طلب کیا کہ وہ مسئلے کے حل کا ٹائم فریم دیں۔چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا چیف سیکرٹری صاحب، یہ مسئلہ الیکشن سے قبل ہی حل ہونا ہے، عدالت کو صرف یہ بتائیں کون سا کام کب اور کیسے ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج طیارے میں لوگوں نے مجھ سے پوچھا جس کے لیے کراچی جارہے ہیں وہ مسئلہ حل ہوسکے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ پانی کی فروخت کاروبار بن چکا ہے، پانی فراہمی کا کوئی نظام نہیں،شہر کراچی میں پانی بیچا جارہا ہے اور ٹینکر مافیا کو مضبوط کیا جارہا ہے، یہ واٹر بورڈ کی غفلت ہے۔انہوں نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کر کے کہا کہ واٹرٹینکرز اور ہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیا آپ کا بندہ ماہانہ پیسے وصول نہیں کرتا، پانی دیتے نہیں ٹینکرز چلا کر کمائی کا دھندہ چل رہا ہے۔آ پ بتائیں کہ شہر میں واٹر ٹینکر کیسے چل رہے ہیں۔جس پرایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کوبتایا کہ شہر کا 30 فیصد علاقہ واٹر بورڈ کے انڈر نہیں آتا اس لیے کچھ علاقوں میں ٹینکر فراہم کیے جاتے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ پانی دیتے نہیں، لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔ ’میرے گھر کے نلکے میں پانی آئے تو کیا بے قوف ہوں جو 3 ہزار کا ٹینکر منگواؤں گا، ذمے داری ادا نہ کرسکوں تو اس عہدے پر رہنا ضمیر کیخلاف ہوگا، آ پ سوچیں کہ نتائج نہیں دے سکتے تو عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ ہم چاہتے ہیں لوگوں کو صاف ستھرا پانی ملے،آپ کے منصوبے اور پروگرام میری رٹائرمنٹ کے بعد کے ہیں، مجھے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے6 ماہ میں پانی کے مسئلے کاحل چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلی مرتبہ میں پورٹ گرینڈ گیا جہاں کچرے کے ڈھیر تھے، کچرا سر سے اوپر تک دکھائی دے رہا تھا، آخر یہ کچرا کون اٹھائے گا، ہیپاٹائیٹس تیزی سے پھیل رہا ہے کیا پوری قوم کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں،کراچی کو کچرے میں تبدیل کر دیاگیا ہے۔سماعت کے موقع پر چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔چیف سیکریٹری نے بتایا کہ 550ملین گیلن پانی یومیہ کینجرجھیل اور 100ملین گیلن پانی حب ڈیم سے آتا ہے۔جبکہ دوران سماعت عدالت میں واٹر بورڈ کی تیار کردہ ویڈیو بھی پیش کی گئی جسے چلانے کے لیے کمرہ عدالت میں پروجیکٹر بھی لگایا گیا۔