امریکی اقدام ’’بڑی جنگ‘‘ کی جانب پہلا قدم!
شیئر کریں
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا تو تمام دنیا میں نہ صرف اس کی شدید مذمت کی گئی بلکہ مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے 1995ء میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی قرارداد منظور کی تھی لیکن اس وقت مسلم دنیا کی جانب سے سوائے بیان بازی کی حد تک شدید ردعمل سامنے نہیں آیا تھا اس کے بعد سے لے کر آج تک ہر امریکی صدارتی امیدوار کے سیاسی منشور میں یہ شق بھی لازمی شامل ہوتی تھی کہ وہ حتی الوسع کوشش کرے گا کہ امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کیا جائے۔یہ باتیں مسلمہ امہ کے سامنے ہورہی تھیں مگر کسی نے بھی اس معاملے کی جانب دست احتجاج دراز نہ کیا ۔اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ اقدام نہ تو اچانک ہے اور نہ ہی ٹرمپ جیسے متلون مزاج شخص کی مہم جوئی بلکہ یہ وہ منصوبہ ہے جس کی ابتدا ایک صدی قبل کردی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کے اعلان کی ٹائمنگ بھی خاصی دلچسپ ہے یعنی ٹھیک سو برس قبل یعنی 1917میں نیویارک میں بالفور ڈیکلریشن کے نام سے اسرائیل کے قیام کی قراداد منظور کی گئی تھی اس کے ٹھیک سو برس بعد یعنی 2017ء میںامریکی صدرمقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اتفاق تھا؟
1917ء میں بالفور ڈیکلریشن کے نام سے برطانوی وزیر اعظم آرتھر جیمس بالفور کی جانب سے اسرائیلی قیام کی قرارداد منظور کرنے کے بعد پچاس برس تک یورپ سے امریکا کی جانب یہودیوں کی بڑی ہجرت عمل میں آتی ہے۔ یہی وہ پچاس برس ہیں جب برطانیا سے عالمی حکمران ریاست کا منصب یا اسٹیٹس لندن سے واشنگٹن منتقل ہوتا ہے ۔ اسی طرح برطانوی کرنسی یا سکہ پونڈ کی عالمی حیثیت سکڑ کر برطانیا تک محدود ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ ڈالر عالمی حکمران کرنسی کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ عالمی سیادت کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی کرنسی دنیا میں دیگر کرنسیوں کے مقابل سب سے طاقتور ہو۔ اتنی بڑی تبدیلی کے ضروری ہے کہ عالمی سطح کی جنگ بھی کروائی جائے جو دنیا کے رائج الوقت نظام کو ہلا کر رکھ دے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کا دورانیہ بھی 1914ء سے لے کر 1918ء تک کا ہے جس کے دوران اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو نیویارک میں منظور کیا گیا۔ اس کے بعد ہی امریکا نے یورپی یہودیوں کے لیے امریکا کے دروازے کھول دیئے اسی وجہ سے یورپ کے معاشی حکمران صہیونی خاندان روتھ شائلڈ کے امریکا میں فرنٹ مین جے پی مورگن نے امریکا کو اقتصادی دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بیل آئوٹ پیکج دیاتھا۔
اس کے بعد یورپی معاملات تک محدود لیگ آف نیشنز کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت تھی اس کے علاوہ اس کا ہیڈکوارٹر یورپ سے نئی عالمی حکمران ریاست امریکا منتقل کیا جانا تھااسرائیل کے جغرافیائی قیام سے پہلے ایک اور بڑی جنگ کروانا مقصود تھا اس لیے دنیا نے دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیاں دیکھیںاس ہولناک جنگ کے اختتام کے بعد ہی اسرائیل کا قیام ممکن ہوسکاتھااس سے پہلے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کو جائز قرار دلوانے کے لیے دنیا کو پہلے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جانا تھااس کے علاوہ اسی پلیٹ فارم سے مغربی نوآبادی نظام کے تحت آزاد ہونے والی دنیا کو کنٹرول کرنا بھی مقصود تھا اس میں سب سے زیادہ حصہ مسلم ممالک کا تھا اس لیے اسرائیل کے جغرافیائی قیام سے محض تین برس قبل 1945ء میں لیگ آف نیشنز کو اقوام متحدہ کا لبادہ اڑا کر اسی نیویارک میں اس کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا جہاں کبھی بالفور ڈیکلریشن منظور ہوا تھا۔۔۔کیا ہم اسے محض اتفاقی معاملہ قرار دے سکتے ہیں؟
یہ تمام کاوشیں محض اس ایک صہیونی نظریے کی بنیاد پر ہورہی تھیں کہ یہودیوں کا ’’مسیحا‘‘ یروشلم یعنی مقبوضہ بیت المقدس سے دنیا پر حکمرانی کرے گایہودیوں کا مسیحا ہی درحقیقت سچے مسیحوں کا ’’اینٹی کرائس‘‘ اور مسلمانوں کے نزدیک ’’دجال‘‘ ہے یہودی جس مسیحا کا انتظار کررہے ہیں وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت میں دو ہزار برس قبل آچکے تھے لیکن مسیحی کاہنوں نے رومن حکمرانوں کے ساتھ مل کر انہیں مصلوب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اللہ رب العزت کی منشا کے مطابق آسمان پر اٹھا لیے گئے اور یہودی اور ان کے رومن حکمرانوں کو شک میں ڈال دیا گیابرناباس کی انجیل کے مطابق بارہ حواریوں میں سے ایک غدار حواری جس نے گرفتاری کے وقت رومن فوجیوں کے لیے مسیح علیہ السلام کی شناخت کرنا تھی بالکل مسیح جیسا ہوگیا اور رومیوں نے اسے ہی گرفتار کرکے سولی پر چڑھا دیا جبکہ اللہ کے نبی ؑکو اللہ کی مرضی سے آسمان کی جانب اٹھا لیا گیا۔مسیح علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کے ستر برس بعد یہودیوں کی عقل ماری گئی اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر رومیوں کے خلاف بغاوت کردی جس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ ہیکل سلمانی کو بنیادوں سے ہی تباہ کردیا گیا لاکھوں یہودی قتل کردیئے گئے جو باقی بچے انہیں رومن تھیڑروں میں درندوں کے سامنے ڈال دیا گیا جو باقی بچ گئے انہیں دنیا کی مختلف قوموں میں منتشر کردیا، رومیوں نے پابندی لگائی کہ یہودی کبھی یروشلم واپس نہیں آسکیں گے یہاں تک کہ رومیوں نے یروشلم کا نام بدل کر ایلیا رکھ دیا۔اس کی تاریخی تفصیلات طویل اور عبرت آموز ہیں۔
اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک عالمی دجالی صہیونیت کی جانب سے جو بڑا قدم اٹھایا گیا ہے وہ سوویت یونین کی تحلیل اور اس کے بعد مسلمانوں کو آپس میں دست گریباں کرنا ہے تاکہ اسرائیل کی عالمی سیادت کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کیجاسکیں ۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین کو کس انداز میں بکھیرا گیا وہ تاریخ ہے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مشرقی یورپ اور روس میں مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کا غلبہ ہے جو کسی طور بھی مغربی یورپ اور امریکا کی لادینی یا برائے نام کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عیسائیت سے میل نہیں کھاتی۔ اسی لیے مشرقی آرتھوڈکس عیسائیت کی کمر توڑنے کے لیے روس میں کمیونزم کی تحریک چلا کر یہاں سے مذہب کی بیخ کینی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا اور کمیونزم کا مرکز ماسکوایک مرتبہ پھر مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کا گہوارہ بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں کی توسیع کے لیے مشرق وسطی کو جنگوں کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے عرب حکومتوں کے ذریعے انہی کی پراکسی تنظیموں کو دہشت گردی اور اور انتہا پسندی کے نام پر منتشر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن تو دشمن ہی تھے اپنے بھی دشمن بن گئے اس کے ساتھ ساتھ ایران کو ہوا بھر کر پورے خطے میں مسلکی جنگ کا محاذ بھی کھول دیا گیا عراق، شام ، لبنان اور یمن اس کی واضح مثال ہیں۔ اس کے بعد دجالی صہیونی قوتوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں اس سلسلے میں پاکستان میں گڑبڑ کرانے کی پوری کوشش کی گئی تاکہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جوہری ہتھیار لگ جانے کا بہانہ بناکر افغانستان میں بیٹھی خصوصی فورس کے ذریعے پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ٹھکانے لگایا جاسکے لیکن پاکستان کے دفاعی اداروں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔
(جاری ہے )