اسلامیات کا نصاب اوراربابِ اختیار کی چشم پوشی
شیئر کریں
راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک مقامی کے 19دسمبر 2017کے اخبار کے صفحہ 8 پر یہ خبر شائع ہوئی کہ ایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائی جارہی ہے اور اسلامیات کے شعبہ کے چیئرمین کے علم میں یہ بات لائی بھی جا چکی ہے لیکن پچھلے گیارہ سال سے ایسا ہورہا ہے۔ راقم نے یم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائے جانے پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ راقم نے نوٹس میں اخبارمیں شائع ہونے والی رپورٹ پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے چانسلر کو کہا گیا ہے کہ سات یوم کے اندر اندرایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائے جانے کے معاملے کی وضاحت کریں اور فوری طور پر اِس کو نصاب سے نکالا جائے۔قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مورخہ19-12-2017 کو راولپنڈی کے کے ایک قومی اخبار کے صفحہ نمبر 8 پر انتہائی افسوس ناک خبر شائع ہوئی ہے۔ اُس خبر کا تراشا آپ کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ یہ کہ ایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائی جارہی ہے اور اسلامیات کے شعبہ کے چیئرمین کے علم میں یہ بات لائی بھی جا چکی ہے لیکن پچھلے گیارہ سال سے ایسا ہورہا ہے۔آپ کو یہ قانونی نوٹس دیا جارہا ہے کہ سات یوم کے اندر اندرایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائے جانے کے معاملے کی وضاحت کریں اور فوری طور پر اِس کو نصاب سے نکالا جائے۔
حضرت اقبالؒ جیسے عظیم عاشقِ رسول کے نام سے منسوب یونیورسٹی میں نبی پاک ﷺ کی ختم نبوت کے انکاری مرزائیوں کی تفسیر قران پڑھائی جانا اسلامیان پاکستان کے ساتھ ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے۔22دسمبر میں اوپن یونیورسٹی کی جانب سے یہ خبر شائع ہوئی کہ خزاں 2017 میں وہ کتاب نصاب سے نکال دی گئی ہے۔ اور جس شخص کی بابت کہا گیا ہے اُس کے نام کے ساتھ غیر مسلم نہیں لکھا تھا اِس لیے پتہ نہیں چلا کہ ایسا کیسے ہو گیا۔ خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِس معاملے کے حوالے سے ایکشن لے لیا تھا اور کمیٹی بنادی گئی تھی کہ وہ اِس حوالے سے رپورٹ پیش کرئے۔ جب فیس بک پر ٹائم لائن پر لیگل نوٹس کی خبر لگی تو بہت سے دوستوں نے اِسے شیئر کیا ایک مولانا صاحب جن کا نام ضیاء الحسن ہے جو کہ بھلوال سے تعلق رکھتے ہیں اُنھوں نے فیس بک پر لکھا کہ یہ معاملہ ختم ہوچکا ہے آپ دو ٹکے کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں۔ میںنے اُن سے استفسا رکیا کہ اگر یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے تو اچھی بات ہے لیکن کیونکہ میں نے ابھی اُنیس دسمبر کو ہی اُمت اخبار میں یہ خبر پڑھی ہے اور پھر لاہور میں اُمت اخبار کے ایڈیٹر جناب نجم عطاء سے بات بھی ہوئی ہے۔ میں نے فیس بُک سے ہی مولانا صاحب کو کال کی تو مولانا صاحب نے مجھے کہا کہ یہ آپ کا کام نہیں ہے آپ لوگوں کے کیس لڑیں۔ اِس کے علاوہ بھی مولانا صاحب نے کافی کچھ کہا۔ جو کہ میں نے آقا کریم ﷺ کی ناموس کی خاطر برداشت کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ بائیس دسمبر کے اخبارات میں اوپن یونیورسٹی نے وضاحتی بیان دیا ہے کہ خزاں 2017 میں یہ کتاب نصاب میں سے نکال دی گئی تھی۔ اور یونیورسٹی انتظامیہ نے کمیٹی قائم کردی ہے کہ وہ اِس کا نوٹس لے اور کاروائی کرئے۔ اگر یہ معاملہ نہ اُٹھایا جاتا تو کیا یونیورسٹی اِس حوالے سے کوئی قدم اُٹھا پاتی۔گویا ختم نبوت کے حوالے سے یونیورسٹی نے بدترین نا اہلی کا ثبوت دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت نے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی اور بعد میں معاملہ درست ہوا۔ نواز شریف نے کہا کہ چوبیس گھنٹے میں راجہ ظفر الحق ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کے ذمہ داروں کے خلاف رپورٹ دیں گے لیکن کئی مہینے گزر گئے ہیں ابھی تک کچھ نہیں۔ قادیانی اگر خود کو اقلیت تسلم کر لیں تو معاملہ ہی حل ہوجائے۔لیکن وہ مسلمانوں کو مسلمانوں کا ٹریڈ مارک استعمال کرکے دھوکہ دے رہے ہیں۔ اِس لیے تعلیمی اداروں خاص طور پر اسلامیات جیسے مضامین میں مرزائیوں کی کتابوں کو نصاب میں شامل ہونا بہت افسوس ناک خبر ہے ۔ اور اِس حوالے سے اربا ب اختیار تو خود ملوث ہیں اُنھوں نے کیا کرنا ہے۔ حالیہ ن لیگ کی حکومت میں ختم نبوت کے قانون کے ساتھ کسی حد تک ڈاکہ زنی کی گئی یہ بات اظہر من الشمس ہے۔
اِن حالات میں بطور مسلمان ہمار اکردار کیا ہونا چاہیے کہ ختم نبوت کے قانون پر پہرہ دیا جا سکے۔ یہ بات درست کہ ختم نبوت کے حلف کی آئینی شقوں 7بی 7سی کو پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔ ختم نبوت کا قانون پہلے کی طر ح بحال کر دیا گیا۔ چونکہ نواز حکومت اِس وقت بُری طرح دبائو میں ہے اور اُس نے نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ اور ختم نبوت ﷺکے قانون پر ڈاکہ ڈالنے والے وزراء کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ شاید نواز شریف فیملی کو نبی پاکﷺ کی شفاعت کی طلب ہی نہیں رہی۔ اُسے تو بس ایک ہی فکر ہے کہ اُسے کیوں نکالا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے تفصیلی جاری کردیا ہے اور اُن محرکات کا ذکر کیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا سبب کیا ہے۔اُدھر سے ڈار جو کہ ملک کے خزانے کے وارث تھے اُنھوں نے خزانے کو خوب زک پہنچائی ہے ۔ اور بیمار حالت میں ملک سے باہر ہیں۔ اُن کی تصاویر اور وڈیو سے نظر آرہا ہے کہ وہ شدید دبائو میں ہیں شاید اُنھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ اُن کا وزن بیس کلو سے بھی زیادہ کم ہوگیا ہے۔ چونکہ اُن کی جناب نواز شریف سے رشتہ داری ہے اِس لیے وہ بھی مقرب ٹھرے۔ اِس سارے کھیل کے دوان جب ہر طرف پانامہ اور اقامہ کا شور تھا۔ ایک گھمبیر صورتحال سامنے آگئی۔ وہ یہ کہ ختم نبوتﷺ کے حلف نامے کو تبدیل کردیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کے احساس معاملے میں بھی نواز لیگ کے حامیوں کو سب اچھا نظر آتا رہا ہے۔ اور تو اور جن لوگوں نے ساری زندگی نبی پاک ﷺ کی محبت کے ترانے پڑھے اور اِسی بناء پر سیاست میں کامیابیاں حاصل کیں میری مراد اُن پیر صاحبان سے ہے جو نواز حکومت میں ہیں۔ اُن کے مریدین نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے قانون کے تحفظ کی بجائے اپنے پیر صاحبان کی کرسی کی مضبوطی کے لیے نواز لیگ کے اِس افسوس ناک اقدام کی مذمت نہیں کر پائے شاید اُن کے نصیب میں اب نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی بجائے سیاسی آقائوں کی حاشیہ برداری لکھ دی گئی ہے۔
راقم پچاس سال کی عمر کو پہنچ گیا ہے اور راقم کا تعلق عشق رسولﷺ کی سُرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ رہا ہے۔ راقم نے ابھی تک جتنی مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا ہے وہ نواز شریف کو ہی دیا تھا۔ لیکن اب جب کرپشن کی کہانیاں نواز شریف کی اپنی حکومت کے دور میں ہی آشکار ہوئی ہیں وہ تو عدالتوں کا کام ہی وہی جانیں۔ لیکن ممتاز قادریؒ کی شہادت اور ختم نبوت کے قانون پر ڈاکہ زنی نواز حکومت کے وہ سیاہ کام ہیں جس سے دیندار طبقے کو بہت تکلیف ہوئی ہے۔ایک بات درست ہے کہ پیر صاحبان جو حکومت کے ساتھ ہیں اُن کی مرضی وہ جس مرضی پارٹی کا ساتھ دیں۔خواہ نواز شریف کے ساتھ ہوں یا کسی اور کے ساتھ۔ لیکن دُکھ اِس بات کا ہے اُنھوں نے ہمیشہ اہلسنت کا پلیٹ فارم استعمال کرکے اپنا سیاسی قد بنایا اور اب وہ ایک ایسے حکمران کی کاسہ لیسی کر رہے ہیںجس کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نااہل اور جھوٹا قرار دے چکی ہے۔ راقم کو اِس سے بھی غرض نہیں کہ نواز شریف جو دائیں بازو کی سیاست کرتے رہے اب کسی اور طرف نکل گئے۔ لیکن بات تو نبی پاکﷺ کی ناموس کی ہے۔ بے چارے مریدین اللہ پاک کو اور نبی پاکﷺ کو ناراض کرکے اپنے اپنے پیروں کی خوشامد میں طوطوں کی طرح بول رہے ہیں ۔ اِس طرح کے حالات میں حکومتی اداروں میں ختم نبوت کے دُشمنوں کا کردار مملکت خداد پاکستان کے آئین و قانون کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو ختم نبوت کے حوالے سے بہت زیادہ کڑا پہرہ دینا ہوگا۔ اور وہ کالی بھیڑیں جو قادیانیوں کے لیے نرم گو شہ رکھتی ہیں اُن کو بے نقاب کرنا ہوگا۔