سیاسی دشنام طرازیاں
شیئر کریں
پاکستانی سیاست میں گالی گلوچ انتشار اور آپس میںاختلافات اب اپنی انتہائوں کو پہنچ رہے ہیںحال ہی کے پی ٹی آئی کے اوکاڑہ جلسہ میںعمران خان کا یہ کہنا کہ گیدڑ کبھی تحریک نہیں چلا سکتانوازشریف جیسے لوگوں نے کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی اور گیدڑ کیا عدلیہ کے خلاف تحریک چلائیں گے؟ سیاسی جلسوں میں کردار کشی کرنامغلظات کی زبان استعمال کرنا شاید ملک کے آئندہ مستقبل کے لیے بہتر نہ ہوگا۔اسی طرح ریلو کٹے ،ڈاکو ،چور ،موٹو گینگ وغیرہ جیسے الفاظ بھی سیاسی زبان نہیں ہیں۔
ملک جو کہ پہلے ہی عمیق مسائل میں گھرا ہوا ہے اس میں ایسی باتوں سے مزید افرا تفری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ امریکن صدر کے پریشر کے باوجود ایٹمی دھماکے کرنے والے شخص پر امریکی بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام کسی صورت جچتا نہیںعمران خان کے جلسہ میں مولوی ڈیزل کہہ کر مولانا مفتی محمود کے فرزند فضل الرحمٰن پر بھبتیاں کسنابھی سیاسی موسم کا درجہ حرارت مزید گرم کرتا چلا جارہا ہے اس کے برعکس شریفوں کے وزراء بھی کچھ کم نہیں کر رہے وہ بھی ہر صورت غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے عمران خان کے لتے لیتے رہتے ہیںاورایسی ایسی سیاسی اصطلاحات ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو کہ پاکستانیوں کے سینوں میں خنجر کی طرح چبھ جاتے ہیں۔
پی پی پی کے بارے میں بھی مذکورہ دونوں پارٹیو ں کی زبان ان کے شایان شان نہیں ہے ٹی وی اینکرز بھی اپنا ریٹ بڑھانے کے لیے سخت زبان استعمال کرنے والے افراد کو بلاتے اور ایکدوسرے کے غلیظ کپڑے کھلے میدان میں دھوتے رہتے ہیں ۔عمران خان صاحب کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ائیر مارشل ریٹارئرڈ اصغر خان جیسی مقبولیت شاید وہ کبھی بھی ناپاسکیں کہ انہوں نے 1977میں پاکستان قومی اتحاد کی نظام مصطفیٰ تحریک کے دوران کراچی میں 20لاکھ افراد پر مشتمل جلوس کی قیادت کی تھی اور ایوبی دور میں خان عبدالقیوم خان نے 37میل لمبا جلوس نکالا تھا مگر اب ان کی جھاگ کبھی کی بیٹھ چکی اور پاکستانی سیاست میں ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا ان کا سیاسی سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا ور راقم خود شیخ رشید اور جاوید ہاشمی کے ساتھ ایک ہی وقت اکٹھے اصغر خان کی تحریک استقلال میں 22دسمبر 1976کو مشہور زمانہ وکیل محمود علی قصوری صاحب کے دفتر ملحقہ لاہور ہائیکورٹ میں شامل ہوئے تھے بعد ازاں میاں نواز شریف اور اعتزاز احسن بھی تحریک استقلال کے ہو کر رہ گئے۔
ضیاء الحق کے ملک پر قبضے کے بعد جاوید ہاشمی تو امور نوجوانان کے وزیر مملکت بن کرہمارا ساتھ چھوڑ گئے مگر میں اور شیخ رشید و دیگر افراد عرصہ دراز تک ان کے ساتھ رہے تاآنکہ انہوں نے خود ہی پارٹی کی قیادت چھوڑ دی اور بھٹو کو ہالا کے پل پر پھانسی پر لٹکانے کے نعرے لگانے والا اصغر خان خود ہی بینظیر بھٹو صاحب کے ساتھ اتحادوں میں شامل ہو گیا اور اپنے بیٹے کو وزیربنوالیا جو بعد میں قتل ہو گئے ۔مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کی سیاست کو پاکستانیوں نے کبھی پسند نہیں کیا کہ اس کا نتیجہ کبھی بھی ملک کے حق میں اچھا نہیں نکلا ہم پہلے ہی1 197 جیسے سانحہ سے دوچار ہوچکے ہیںجس میں ہم نے اپنا مشرقی بازو کھودیاکہ اقتدار پر رہنے کی ضد کی وجہ سے یحیٰی خان نے بنگلہ بھائیوں کو دھکے دے کر علیحدہ کیا تھا اور مجیب الرحمٰن کی طرف سے یحیٰی خان سے ملاقات کے دوران اسے صدر پاکستان برقرار رکھنے کا وعدہ نہ کرنے پر فوجی ایکشن شروع کر ڈالا گیا۔
ادھر یحیٰی بھٹو کی لاڑکانہ میں ملاقات کے بعدجب بھٹو صاحب کو سلامتی کونسل میں پاکستانی نمائندے کے طور پر بھیجا گیا تو انہوں نے پولینڈ و دیگر ممالک کی قرار داد جس میں مشرقی پاکستان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اسے پھاڑ ڈالا اور ہزار سال تک بھارت سے جنگ لڑنے کے جذباتی نعرے لگا کربھٹو صاحب سلامتی کونسل کے مخصوص اجلاس کا بائیکاٹ کرکے واپس آگئے اب چونکہ سبھی مہرے اپنا اپنا کام کرچکے تھے اس لیے یحییٰ خان نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں 98ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دے دالا۔اور جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڈا کے آگے اپنا پستول رکھ کر جنگ بندی کے معاہدہ پر دستخط کر ڈالے اور سقوط ڈھاکہ کے نام سے تاریخ کی بدترین شکست مسلمان سپاہ نے قبول کر لی اور یوں سبھی غدار کرداروں کا مشن مکمل ہوگیا اور ملک دو لخت ہو گیا۔
اس وقت بھی ہم آجکل کی طرح جذباتی نعروں اور ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ اور تشدد پسندانہ سیاست سے بھرپور کردار ادا کر رہے تھے ۔بھٹو نے تو اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگاتے ہی پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس جو کہ ڈھاکہ ہی میں منعقد کیا جانا تھا کہ بارے میں کہہ ڈالاکہ جو شخض مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اس طرح یحٰیی خان ہر صورت صدارت پر برقرارہنے اور مغربی پاکستان میں زیادہ ممبرز رکھنے کی وجہ سے اقتدار کی سیڑھیوں پر فوراً چڑھ جانے جیسی خواہشات کی غلامی نے ملک ہی گنوا ڈالا۔
موجودہ حالات میں عام مسلمان سخت پریشان ہیں اگر یونہی ایکدوسرے کے خلاف غلیظ زبان کا استعمال جاری رہا تو کہیں کوئی انہونا حادثہ ہی پیش نہ آجائے کہ دشمن پاکستان کے چاروں طرف مختلف مورچے لگائے گھات میں بیٹھا ہے کہ پاکستانی عوام فرقہ واریت مذہبی منافرتوں اور علاقائی و لسانی اختلافات کی بنا پر آپس میں کشتم کشتہ ہوں تو وہ اپنا مذموم ملک دشمن کردار ادا کریں ۔قوم بجا طور پر توقع رکھتے ہوئے گذارش کرتی ہے کہ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سبھی سیاستدانوں کو شٹ اپ کال دیں اگر انتخابات سے پہلے ہی سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے درمیان سر پٹھول شروع ہوگیا تو پیارے وطن کا کیا بنے گا؟عمران خان کے اوکاڑہ سے واپس لاہور جاتے ہوئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کی گاڑی کو ٹکر مارنے اور پھر فائرنگ وغیرہ جیسے واقعات اور ایکدوسرے پر الزام تراشیاں ملک کی سیاست کے لیے کوئی اچھا شگون نہیںہے۔