جس جج کا نام پاناما میں ہے کوئی اُس کا نام لے سکتا ہے
شیئر کریں
پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
سیاسی افق پر پچاس سال سے مصروف سب سے سینئر، عظیم اور بے باک سیاست دان جاوید ہاشمی جس کی جمہوریت پسندی کی لوگ قسمیں کھاتے ہیں اور جس کو جمہورت اور پاک دامانی کی سیاست سے ہر عقیدت رکھنے والا سلیوٹ پیش کرتا ہے! پاکستان کی سیاست میں ایسے نام کم کم ہی دیکھے جا تے ہیں۔12مارچ 2017 بروز بدھ،ملتا کی ایک پریس کانفرنس میں کیا خوب بہادری کے ساتھ ڈٹ کر بولے۔ان کے پریس کانفرنس کے اس خطاب نے بڑے بڑوں کی آواز میں ہکلاہٹ پیدا کر کے رکھ دی ہے۔اس معزز سیاست کے شہسوار نے ایسے ایسے پردہ نشینوں کو بے نقاب کر دیا جن کو لوگ صادق اور امین سے بھی کہیں آگے سمجھتے ہیں۔اپنے بیانئے کے پیشِ نظر وہ یہ بات کہنے میں بھی پیچھے نہیں رہے کہ’’ شائد یہ میری آخری پریس کانفرنس ہو‘‘ جاوید ہاشمی سیاست کے میدان کا ایسا شہسوار ہے جسے قید و بند صعوبتیں بھی ہرا نہ سکیں۔ ان کی بے باکی اور جمہوریت سے سچا لگائو انہیں یہ سب کچھ کہنے پر مجبور کر رہا تھا جو کچھ وہ کہہ گئے۔
جاوید ہاشمی جس نے پاکستان کی سیاست اور اس کے سماج کے اُن پردہ نشینوں کے چہروں کی بھی نقابیں نوچ کر رکھ دیں جو معاشرے میں سب سے زیادہ پوترگردانے جاتے رہے ہیں۔اُن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’کوئی جج،جرنیل اور سیاست دان صادق و امین نہیں‘‘تو پھر صداقت و امانت کا ڈھول پیٹنے والے پہلے صادق و امین کی شرط پوری کریں پھر انصاف کی بات کریں۔آگے چل کر وہ مزیدکہتے ہیں کہ’’ جس جج کانام پاناما میں ہے اس کا کوئی نام لے سکتا ہے‘‘ ان کا بھی کہنا تھا کہ ’’ گاڈ فادراور سیلین مافیا کہہ کر آپ نے فیصلہ دیدیا‘‘ اور کہا کہ ’’پاناما لیکس پکی تحقیقات کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ سماعت کا حق کھو چکا،کیس کی سماعت نئی بینچ کرے‘‘ اس کے بعد وہ پنڈی کے درباری کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’پہلے میرا،نواز شریف کا اور پھر مشرف اور اب عمران کا دربای ہے‘‘سینئر سیاست دان نے یہ انکشاف بھی کیا کہ’’ نواز شریف نے مجھے بھی کبھی پسند نہیں کیا‘‘یہ انکشاف بھی جاوید ہاشمی کئی مرتبہ برملا کر چکے ہیں کہ ’’عمران نے کہا تھا کہ تصدق جیلانی کے بعد آنیوالا چیف جسٹس پارلیمنٹ توڑ دے گاجب میں نے کہا کہ یہ مارشل لاٗ ہوگا تو عمران کا جواب تھا کہ جب جج پارلیمنٹ توڑے گا تو اسے مارشل لاء کون کہے گا؟‘‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’آئین کچلنے والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے؟نواز شریف کی کوئی حیثیت نہیں،جرنیل کی انگلی کے اشارے سے تو ملک ہل جاتا ہے‘‘
اس ملک میں قربانی کا بکرا صرف سیاست دانوں کو ہی بنایا جاتا رہا ہے۔اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات ہمیشہ یک طرفہ ہوتی ہیں دنیا میں کوئی بھی ایسی عدالت نہیں ہے جس کے حکم پر جے آئی ٹی بنی ہومزید تماشہ دیکھئے کہ پا نا ما کیس کے لیے تشکیل بینچ نے حکمرانوں کو سیلین مافیا اور گاڈ فادر کہہ دیا،تو انہوں نے فیصلہ سنا دیا اب مزید تحقیقات کی کیا ضرورت رہ گئی ہے؟ ‘‘جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ چند ریاستی اداروں اور بیورو کریسی نے ماضی میں ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔جبکہ سپریم کورٹ نے آمروں کو بھی تحفظ فراہم کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران کے ساتھ میرے بنیادی اختلافات تھے۔جن کی وجہ سے میںنے پی ٹی آئی کوخیر باد کہہ دیا۔اس کی بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ میں ذکر کردوں تو بد نام ہوجائوں گا۔جاوید ہاشمی یہ بھی کہتے ہیں کہااس ملک کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے،اب پھر سازشیں عروج پر ہیںلوگوں معاشی حالت کی بہتری اور انصاف چاہتے ہیں۔ہم آج پاکستان میں سیا سی اتھل پتھل کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اظہار کر رہے تھے کہ عوام کے خادم کے طور پر میرا ضمیر مجھے کہتا ہے کہ آپ سب باتیں کہہ دیں ،عمران نے پارٹی میٹنگ میں کندھے پر انگلی سے اسٹار کا نشان بنا کر کہا تھا ۔۔۔۔۔عمران خان سچا ہے تو کہہ دے ایسا نہیں کہا تھا تو میں اس سے معافی مانگ لوں گا۔اُس نے کہا تھا کہ چیف جسٹس تصدق جیلانی چلا جائے گا اور بعد میں جو جج آئیں گے وہ پالیمنٹ توڑ دیں گے جس پر میں نے عمران سے کہا کہ یہ بھی تو مارشل لاء ہوگا تو عمران خان نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے جج ہی توڑ رہے ہوں گے تو کون کہے گا مار شل لاء ہے؟وہ جج ہی فیصلہ دیں گے کہ کوئی مارشل لاء نہیں ہے۔جنرلز کے حوالے سے بھی جاوید ہاشمی کھل کر بولے جرنیل جوں ہی ریٹائر ڈہوتے ہیں امریکا چلے جاتے ہیں۔آئی ایس آئی کے جتنے بھی سربراہان ہیں وہیں بیٹھے ہیں۔ان کی جائیدادیں بے شمار ہیں۔کوئی نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اور دوبئی میں ہے۔ مجھے بتایا جائے ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے؟جب کبھی ملک کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے تو سیاست دانوں کو ہی دینی پڑتی ہے۔آج تک کسی سپریم جوڈیشل کونسل سے کسی جج کو سزا ہوئی ؟۔اس کونسل کی حیثیت کیا ہے وہ ججوں کو کیوں نہیں پکڑتی ہے؟میں پوچھتا ہوں کیا یہ ملک کے ساتھ انصاف ہے۔حتٰیٰ کسی سول جج کو بھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے۔آئین کچلنے والوں سے کسی نے پوچھا؟ کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے؟
ایک جانب جے آئی ٹی کی ناہمواریاں اور کئی جگہ جانبداریاںسامنے آرہی ہیںتو دوسر جانب بھان متی کا کنبہ جمہوری حکومت کے خلاف صف بندی کر کے اس کو گرانے کے درپے ہے۔تیسری جانب جاوید ہاشمی کے ہوش ربا انکشافات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ملک میں کوئی بہت بڑا طوفان پیدا کرنے کی تیاریاںپاکستان کی دشمن قوتوں نے مکمل کر لی ہیں۔جس میں کٹھ پتلی تماشہ سلیقے کے ساتھ رچایا جائے گا اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا خواب چکنا چور کر کے ہندوستان اور امریکا کے منصوبے کے تحت اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے سی پیک منصوبے کو تباہ کر کیبتا دیا جائے گا کہ روس بھی ایک ایٹمی ملک ہونے کے ساتھ سُپرطاقت بھی تھا تو تمہاری حیثیت کیا ہے؟بھان متی کے کنبے میں پیپلز پارٹی اپنے ماضی کے زخموں کو چاٹ رہی ہے ۔اور جیلانی کا بدلہ اسے نواز شریف سے لینا ہے۔عمران خان کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کس کی ایجنٹی کرتا ہے۔رہے اینٹ روڑے ،تو وہ ہر سیلاب کے ساتھ خود ہی لڑھکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے جمہوریت پسند عوام جاوید ہاشمی کی آواز میں آواز ملا کر سوال کرتے ہیں کہ کیا کبھی ججوں اور جرنیل کا بھی کسی میں احتساب کرنے کی قوت آئے گی؟؟؟؟