اے پی ایس کے شہدا ء کو خراج عقیدت
شیئر کریں
آرمی پبلک ا سکول پشاور میں دہشت گردوں کی بربریت سے شہید ہونیوالے ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کررہی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں شہداء کی روح کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی، فاتحہ خوانی اور تعزیتی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جس میں اعلیٰ شخصیات شریک ہوں گی۔
16 دسمبر کو پشاورکینٹ ایریا میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے نتیجے میں 132 بچوں، 9 ا سٹاف ممبرز سمیت 141 افراد شہید اور 124 زخمی ہوگئے تھے۔ شہید بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں جبکہ 960 کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔ سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے بڑی تعداد میں بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔ جوابی کارروائی میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی تھی جس پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیاتھا۔
کالعدم تحریک طالبان کی درہ آدم خیل تنظیم نے اس بربریت اور سفاکانہ دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل قرار دیاتھا۔پاکستانی طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے کہا کہ ہمارے چھ حملہ آور ا سکول میں داخل ہوئے۔ طالبان کے مولانا فضل اللہ گروپ جس نے ملالہ پر بھی حملہ کیا تھا، نے کہا کہ یہ آپریشن ضرب عضب کا جواب ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان میں بھارتی تربیت یافتہ پاکستان دشمن عناصر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور دہشت گردی کا یہ واقعہ بھی 16 دسمبر کو پیش آیا۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر ملکی حکمرانوں میں سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سب سے پہلے اس واقعہ پر اپنی ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیوں کیا تھا؟ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ پاکستان کی 22 سو کلو میٹر طویل افغان سرحد کے ساتھ2 درجن کے قریب بھارتی قونصل خانوں میں آج بھی پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی اور اْنہیں جدید مہلک اسلحہ سے لیس کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں اور بلوچستان میں تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ بھارت عملی طور پر ثابت کر رہا ہے کہ وہ اب بھی پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کے مخدوش ہونے کی سب سے بڑی وجہ نائن الیون کے بعد کے حالات ہیں۔جب سے بھارت اور امریکہ افغانستان میں قدم جما کر بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال میںجہاں تمام قومی سیاسی قیادتوں کو بہترین قومی مفادات میں اپنے ذاتی اور سیاسی اختلافات سے باہر نکل کر دہشت گردوں کیخلاف قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا اجاگر کرنے کے لیے یکسو ہو جانا چاہیے وہاں حکمرانوں کوافغانستان سے بھی پرزور احتجاج کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ہاں پناہ دیئے گئے دہشت گردوں کو فوراً ہمارے حوالے کرے۔ فضل اللہ گروپ افغانستان میں بھارت کی گود میں پل رہا ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کی ہرواردات کی ذمہ داری فضل اللہ گروپ کے قبول کرنے سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارت اور افغان انتظامیہ جو فضل اللہ کے سرپرست بنے ہوئے ہیں ، وہ بھی دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیوں میں برابر کے شریک ہیں۔
ان معصوموں کے خون ناحق کا بدلہ قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی دلا کر ہی لیا جا سکتا ہے جس کے لیے آج ہماری عسکری اور سول قیادتیں پرعزم بھی ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کی بھینٹ چڑھنے والے ان معصوم بچوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کرکے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قوم کو متحد کرکے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ دہشت گردوں کی پھانسیوں کا عمل پھر سے شروع ہوا۔
سانحہ 16 دسمبر 2014ء کے بعد جب 12 جنوری 2015ء کو آرمی پبلک ا سکول کے دروازے دوبارہ کھولے گئے تو ساری دنیا کے یہ مشاہدہ ناقابل یقین رہا کہ مذکورہ اسکول کے طلباء ، اساتذہ اور ا سٹاف کے دیگر ارکان سمیت طلباء کے والدین اور شہریوں کے حوصلے بدستور سلامت اور بلند تھے۔ خاص طور پر اسکول کے طلباء نے اپنے اس عزم کا ولولہ انگیز انداز میں اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مہذب دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان ایک امن پسند اور پرامن ملک ہے جو دہشت گردوں کا ہدف بنا ہوا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب پاکستان ان دہشت گردوں کا قبرستان ثابت ہو گا۔
آج دہشت گردوں کے حملوں اور کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آچکی ہے۔ دہشت گردوں کو بیرون اور اندرون ملک سے تعاون اور پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر عالمی برادری خصوصی طور پر پڑوسی ممالک اور اندرون ملک سے حکومت اور فوج کو سپورٹ ملتی تو اب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اندرون ملک نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا ہوتا تو دہشت گردوں کی اکا دْکا کارروائیوں کی سکت بھی ختم ہو چکی ہوتی۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سپورٹرز کا احتساب بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ دہشت گردوں کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کی بندش اور پشت پناہی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ملک میں موجود انکے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ہے۔ جس کے لیے اب افواج پاکستان نے ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
تین سال قبل سقوط ڈھاکہ کے سانحہ والے روز سفاک دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پی کے کے دارالحکومت پشاور کے انتہائی حساس کینٹ ایریا میں وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک ا سکول میں معصوم بچوں کے ساتھ انسانی خون کی ہولی کھیل کر پوری قوم کو کرب و سوگ میں مبتلا کر دیاتھا۔
دشمن نفرت اور انتہا پسندی چاہتے ہیں لیکن ہم برداشت کو فروغ دے کر ان کا جواب دیں گے۔ ہم علم دشمنوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جہالت کا مقابلہ کیا اور روشن خیال کی بنیاد رکھی، شہدا کی یادیں مادر وطن کی بقا کے ساتھ جڑی ہیں اور شہدا کی یادوں کو وطن کی بقا سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔