بیت المقدس اورنفاق کی شکار اُمّہ
شیئر کریں
بدھ چھ دسمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی منظوری کا اعلان کیا جس کے بارے کئی ہفتوںسے چہ مگوئیاں ہورہی تھیں اس کاانھوں نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھااس لیے یہ کوئی حیران کرنے والا غیر متوقع فیصلہ نہیں کہہ سکتے پھر بھی کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید پہلے صدورکی طرح ٹرمپ بھی کانگرس کے پاس کردہ یروشلم ایمبیسی ایکٹ1995 پر عملدرآمد کوالتوامیں رکھیں۔ اِس خیال کی وجہ یہ تھی کہ تمام اسلامی ممالک کو ناراض کرنے اورعربوں کے امریکی بینکوں میں پڑے اربوں ڈالرز سے محروم ہونے کا ٹرمپ خطرہ مول لینے کی بجائے کسی مناسب موقع کا نتظار کر یں گے مگر غیر ملکی دورے کا آغازسعودی عرب سے کرنے کا فیصلہ کرکے انھوں نے دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا تھاجس کا ثمر اچھا ملا فیصلے کے عوض سواکھرب ڈالر کے دفاعی معاہدوں کی سلامی حاصل کرلی اور اسلامی سربراہان کی سرپرستی کا اعزاز مفت میں مل گیا اسی دورے کے دوران انھوں نے مسلم امہ میں فرقہ وارانہ خلیج گہری کرنے اور تنائو کو دشمنی کا الائو بنانے کا دیرینہ مقصد بھی پا لیا اسی دورے کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران میں ٹھنی ہوئی ہے اور دونوں روایتی دشمن اسرائیل کو نظرانداز کرکے اب ایک دوسرے کو للکارنے لگے ہیں۔
جہاں تک مناسب موقع کی بات ہے اسرائیل کے حریف ہمسایہ ممالک شام ،عراق وغیرہ تباہی کی منہ بولتی تصویر ہیں اردن اور مصر دوستانہ مراسم استوار کرکے جنگ وغیرہ سے تائب ہو چکے ہیں سعودی عرب و اسرائیل کے غیر اعلانیہ تعلقات کی خبریں چھن چھن کر باہر آ رہی ہیں جبکہ ایران بھی تیسرے فریق کے زریعے اسرائیل سے اسلحہ خریداری کرنے لگاہے اسی سے امریکا کو تقویت ملی کہ سفارتخانے کی منتقلی رازداری کی بجائے پریس کانفرنس میں اعلان کی صورت میں کی جائے ۔ اگر مسلم امہ نفاق کی کی بجائے متحد ہوتی تو ٹرمپ بھی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر چھ ماہ کے لیے فیصلہ مئوخر کر دیتے مگر عربوں کی داخلی صورتحال نے انھیں جلد فیصلہ کرنے کا حوصلہ دیاکچھ لوگ فیصلے میں امریکا کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے مشیر جیراڈ کشنور کا ہاتھ سمجھتے ہیں مگر انھیں یاد رکھنا چاہیے ڈیموکریٹ کے ساتھ ریپبلکن میں بھی ٹرمپ کی نفرت بڑھ رہی ہے سفارتخانے کی تبدیلی کی منظوری دے کر انھوں نے اسرائیل کو راضی کرنے کے ساتھ مواخذے کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو بھی دبا لیاہے اسرائیل کی کانگرس میں اہمیت مسلمہ ہے جہاں جتنی اسرائیلی وزیرِ اعظم کی پزیرائی ہوتی ہے ویسی کسی اور ملک کے سربراہ کو نہیں ملتی۔
یمن کی خانہ جنگی ہمسایہ ممالک تک پھیلنے کے اندیشے بڑھ ر ہے ہیں اور لیبیا عملی طور پر منقسم ہے اردن کے حکمران ویسے ہی اسرائیل کے تابعدار ہیں اسی بنا پر یہ خیال کرنا کہ فیصلے پر عربوں کا شدید ردِ عمل ہوگا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ عین ممکن ہے سعودیہ کوفیصلے سے قبل اعتماد میں لیا گیا ہو علاوہ ازیں ایران اور سی آئی اے کئی محازوں پر ایک دوسرے کے امدادی ہیں ٹلرسن کا یمن جنگ میں سعودیہ کو دخل دینے سے باز رہنے کا بیان تہران کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتا ہے جس کی بنا پر غالب امکان ہے کہ دکھاوے کے لیے احتجاج ہو گا مگر اپنی اپنی ضروتوں کے لیے انکل سام سے بگاڑ کا کوئی خطرہ مول نہیں لے گا اسی تناظر میں فلسطین کے صدر محمود عباس کا بیان حقیقت کا عتراف ہے جس میںانھوں نے اب فلسطینی مملکت کا حصول ناممکن محسوس ہوتا ہے کہا ہے کیونکہ عسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی اپیل بیت المقدو س کی حثیت تبدیل نہ کی جائے کو کسی نے اہمیت نہیں دی فلسطینی مظاہرین بھلااحتجاج سے کیسے بات منوا سکیں گے؟ روس، برطانیا، جرمنی،فرانس سمیت سارا یورپ امریکی فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے کینڈا نے تل ابیب میں سفارتکار رکھنے کا عندیہ دیا ہے مگر اسرائیل خوش ہے کیونکہ واحد سُپر پاور کے فیصلے سے اُس کا قبضہ تسلیم اور جارحیت کو قانونی حیثیت مل گئی ہے ۔
عبرانی میں یروشلائم اور عربی میں القدس کہلانے والا شہر بیت المقدس صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بھی مقدس ہے اسی شہر کو مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم شریف ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ تاجدارِ مدینہ کی جائے سراء بھی ہے اِس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے جس میں تباہی بھی ہوتی رہی اور تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حضرت عمرؓ نے 638ء میں آزاد کرا کر اسلامی سلطنت کا حصہ بنایا۔ گیارہ دسمبر 1917میں برطانوی جنرل سر ایڈمنڈ ایلن نے سلطنت عثمانیہ سے یروشلم چھین لیاجس کے سوسال پورے ہونے پر ٹرمپ نے شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا علان کیا ہے یہ ٹائمنگ خاصی معنی خیز ہے جس سے مسلم دنیا کا مذاق اُڑانے کے ساتھ صیہونیوں کو تحفہ دینے کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔
فلسطین کو تقسیم کرتے ہوئے جب اسرائیل بنانے کی منظوری دی گئی تواس مقدس شہر کی خاص حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اس حوالے سے اقوامِ متحدہ نے قراردادیں پاس کر رکھی ہیںلیکن ایک سال بعد ہی 1948میں یہودیوں نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ 1950 سے یہ شہر عملی طور پر اسرائیل کا دارالحکومت ہے کیونکہ اِس شہر میں صدر،پارلیمنٹ ،وزارتوں کے دفاتراور عدالت اعلیٰ ہے لیکن مشرقی حصہ جہاں مسجدِ اقصیٰ ہے اردن کے کنٹرول میں رہا 1948سے لے کر1967تک یہودیوں کا بیت المقدس میں داخلہ ممنوع رہا لیکن 1967کی جنگ میں اسرائیل نے شہر کے باقی حصے پر قبضہ کرنے کے ساتھ مغربی کنارے کو فتح کر کے اپنا حصہ بنا لیا۔ اب امریکا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے سفاتخانے کی منتقلی کا فیصلہ کیا ہے اُس کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو پاور بھی ہے اسی لیے سلامتی کونسل چیخ سکتی ہے مگر عملی طور پر کچھ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے گی فلپائن نے بھی امریکی تقلید کرتے ہوئے یروشلم کواسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مزید ملک شہ پاسکتے ہیں یا امریکی دبائو پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے 13دسمبرکو او آئی سی کا استنبول میں جو اجلاس ہو رہا ہے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے کیا55 اسلامی ممالک متفقہ لائحہ عمل کے لیے متحد ہو پائیں گے ؟اسلامی عسکری قیادت جنبش کرتی ہے یا تماشہ دیکھنے تک محدود رہتی ہے اگر جوتے کھانے اور جی حضوری تک محدود رہنا ہے تو بہتر ہے اجلاس کا تکلف بھی چھوڑ دیا جائے۔طیب اردوان کے سوا مسلم ممالک کے حکمران اغیار کے آگے سرنگوں رہنے کے لیے ہی حکمران بنتے ہیں او آئی سی اجلاس سے صورتحال واضح ہو جائے گی۔
اسلامی ممالک سے امریکا کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے ساتھ عرب لیگ کاہنگامی اجلاس ختم ہو گیا ہے مگر جو فیصلہ کرنا چاہئے تھا نہیں کیا گیا یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ عربوں کی دولت امریکی معشیت کو سنبھالا دیے ہوئے ہے اگر عرب اپنے قول کے مطابق فعل کو بنا لیں اور اپنی دولت امریکی بینکوں سے نکال لیں تو واشنگٹن میں بیٹھے دماغ درست ہو سکتے ہیں لیکن مسلم امہ نے اپیلوں پر انحصا ر کر رکھا ہے اسی لیے اہمیت سے محروم ہے ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل پچپن اسلامی ملکوںکو اللہ نے وافر معدنی وسائل سے نوازرکھا ہے کچھ ملکوں کا جغرافیائی محلِ وقوع بہت اہم ہے مگر افرادی قوت اور معدنی وسائل سے خاطر خواہ کام نہیں لیا جارہا اگر متحد ہو اسلامی بینک بنا لیں ،تعلیم وتحقیق کی طرف دھیان دیں ،امریکی مصنوعات نہ خریدیںاور افرادی قوت کو دفاع کے لیے استعمال کریں تو مجھے یقین ہے
اسرائیل کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے بلکہ امریکا کو بھی راہ راست پر لایا جا سکتا ہے مگر مسلم حکمرانوں کو اقتدار سے غرض ہے چاہے اغیار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو کر ہی کیوں نہ ملے ۔