خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قرآن اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح
شیئر کریں
(دوسری قسط)
کورٹ آف پاکستان کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے2016 میںو راثت کے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے ہاں بیٹی اور بہن کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا رجحان عام ہے جو شریعت کے منافی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ سبھیل نامی خاتون کے بچوں کی وراثت کے بارے میں ماتحت عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس اقبال حمید الرحمن پر مشتمل بینچ نے رٹ کی سماعت کی اور ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔ اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں ایک ٹکہ بھی نہیں دیا جاتا۔ انہیں ڈرا دھمکا کر وراثت نہ لینے پر قائل کیا جاتا ہے۔ زمینوں سے پیار کرنے والے اپنی وراثت بچانے کے لیے سگی بہنوں اور بیٹیوں کے وجود تک سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرہ نے خواتین کو وراثت میں جو حقوق دیے ہیں اس سے کوئی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا، وقت آگیا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
رحقیقت اِس آر ٹیکل کو لکھے جانے کا محرک وہ امتناع حقوق خواتین ایکٹ 2011 ہے۔ جس میں خواتین کے وراثت کے حق کے لیے تعزیزات پاکستان میں 498A دفعہ شامل کی گی۔ اِس کا مقصد خواتین کے وراثتی حقوق کا تحفظ ہے۔ وہ دفعہ یہ ہے۔
Section 498A-PPC..Under section 498 A, depriving women from inheriting property by deceitful or illegal means shall be punished with imprisonment which may extend to ten years but not be less than five years or with a fine of one million rupees or both.
جو کہ درحقیقت خواتین کے وراثتی حقوق کے حصول کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے اِس ایکٹ کے تحت تعزیزات پاکستان میں 498-A کا اضافہ کیا گیا ۔جس میں خاتون کو حق وراثت سے محروم کیے جانے دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اِس طرح کے قوانین کی اہمیت اِس لیے نہیں ہوتی کہ اِن کا اطلاق ہو نا بہت مشکل ہے۔ جس طرح کا سماجی ڈھانچہ پاکستان کا ہے ا،س طرح کے سماجی ڈھانچے میں بہت مشکل ہے کہ ایک خاتون اپنے حق وراثت کے لیے اپنے بھائیوں کے خلاف عدالت میں جائے۔ لیکن اِس قانون کے بننے اور اِس کے نفاذ سے وقت کے ساتھ ساتھ ضرور تبدیلی آئے گی۔
جب خواتین یا اُن کے وارثان اپنی والدہ، دادی، نانی کے حق وراثت کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔ اِس حوالے سے اگر خصوصی عدالتیں قائم ہوجائیں جہاں پر صرف خواتین کے حق وراثت کے معاملات نبٹائے جائیں تو یقینی طور پر اِس سے معاشرئے میں اچھا رحجان پیدا ہو گا۔ ہمارئے معاشرئے میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور یہ بھی ہمارئے ہاں رسم ہے کہ خواتین کی شادی اپنے سے کم مالی حیثیت والے کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ اِس طرح ایک تو عورت کو ویسے ہی کم خوشحال گھرانے میں بھیج دیا جاتاہے اور دوسرا پھر اُس کو حق وراثت بھی نہیں دیا جاتا تیسرا اُس عورت کے بچے بھی پھر معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں جس سے اُن کی اپنے ننھیال کے ساتھ رشتے داری نہیں ہوپاتی یا پھر سٹیٹس کا بہت فرق نمایاں ہوتا ہے جس سے معاشرتی اونچ نیچ کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ اِس ایکٹ کی وجہ سے خواتین کو اُن کے حق وراثت ملنے کے چانسیز سو فی صد ہیں۔ اب ہم اِس قانون کے نفاذ کی راہ میں حائل ایک قانونی نکتے پر خصوصی گفتگو کرتے ہیں۔ کیا ِاِس قانون کا اطلاق اُن پر ہو گا جنہوں نے ابھی تک اپنی بہنوں یا بیٹیوں کو حق وراثت نہیں دیا یا اِس قانون کا اطلاق آنے والے وقت سے ہو گا۔لاہور ہائی کورٹ کے ایک کیس مسماۃ حمیدہ بی بی بنام محمد شریف جس کا فیصلہ لاہور ہائی کورت کے جج علی اکبر قریشی نے لکھا ہے جو کہ 3264/2010 میں ہے کہ بھائی نے اپنی بہن کو گفٹ میوٹیشن کے ذریعہ سے وراثت سے محروم کر دیا۔
کیس کے مطابق پٹیشنر زکا والد ابراہیم 22-4-2001 کو وفات پا گیا اور اُس کے وارثان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ اپنی زندگی میں ابراہیم اپنی زمین کاشت کرتا تھا وہی زمین اُس نے اپنے ترکے میں چھوڑی۔ ابراہیم کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا محمد شریف وہ زمین کاشت کرنے لگا۔ پہلے پہل محمد شریف اپنی بہنوں کو کہتا رہا کہ وہ اُن کا حصہ جو وراثت میں بنتا ہے وہ دے دے گا۔ بعدا زاں اُس نے کہا کہ وہ تو والد صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے گفٹ کردی تھی۔ جب پٹشنیر زنے پٹواری سے رابطہ کیا تو پٹواری نے بتایا کہ محمد شریف نے ریونیو کے محکمہ سے مل بھگت کرکے نے جعلی دستاویزات تیار کروائی تھیں۔ پٹیشنرز نے جب ٹرائل کورٹ میں دعویٰ دائر کیا تو اُس کے جواب میں محمد شریف نے بتایا کہ زمین ابراہیم نے اپنے پوتوں کے نام گفٹ کر دی تھی اور بعد میں وہ زمین محمد شریف نے اپنے نام لگوا لی تھی۔ ٹرائل کورٹ نے مسماۃ حمیدہ بی بی وغیرہ کے حق میں ڈگری جاری کردی بعد ازاں محمد شریف نے اِس ڈگری کے خلاف اپیل دائر کردی تو ڈسٹرکٹ کورٹ نے اِس ڈگری کو کینسل کردیا۔ اِس مقدمے کے کہانی برصغیر پاک و ہند کے معاشرئے کے اُس رویے کو ظاہر کرتی ہے جس میں بھائی بہنوں کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں اور اِس مقصد کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے ہیں۔ اِس مقدمے میں حقیقی بھائی نے اپنی بہنو ں کی وراثتی زمین گفٹ کے ذریعہ سے ہتھیا لی۔ اِس کیس کے کچھ اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہیں یہ کہ جو گفٹ میوٹیشن بنائی گئی اُس میںریسپونڈنٹ محمد شریف کے بیٹوں کے نام زمین لگائی گئی لیکن اُسی دن رپٹ روزنامچے میں گفٹ رسپونڈنٹ محمد شریف کے نام ظاہر کی گئی ہے۔یہ کہ مبینہ گفٹ میوٹشن کرتے وقت ریکارڈ میںکٹنگ کی گئی ہے۔ اور یہ کٹنگ کافی سیریس قسم کی ہے۔ جو گواہان پیش ہوئے اُنھوں نے بھی اِس کٹنگ کو تسلیم کیا ہے اِس سے واضع ہے یہ گفٹ Null&Void ہے۔
ریسپونڈنٹ خود بھی بطور گواہ پیش ہو ا لیکن اُس نے ایک لفظ بھی گفٹ کے وقت مقام اور تاریخ کے متعلق نہ بتایا ۔پٹیشنرز نے جب دعویٰ کیا تو اُس میں اُنھوں نے لکھا کہ گفٹ فراڈ پر مبنی ہے اُن کے والد نے گفٹ نہ کیا تھا ابراہیم نے انگوٹھے کا نشان بھی نہیں لگایا تھا اور نہ ہی ابراہیم نے شناختی کارڈ نمبر لکھا تھا۔ اِس امر پر ریسپونڈنٹ کے وکیل کی جانب سے کوئی جرح نہ کی گئی۔ اِس طرح پٹیشنرز کا اِس اہم نکتے پر Rebutell نہیں ہوا۔
ریسپونڈنٹ نے یہ کہا کہ گفٹ ابراہیم نے شفیع اور محمد اسحاق کے سامنے کی تھی۔ لیکن شفیع اور محمد اسحاق کو بطور گواہ پیش نہ کیا۔ اِس موقع پر فاضل عدالت نے ایک کیس غلام علی وغیرہ PLD 1990 SC-1 کا حوالہ دیا کہ عورت ہمارے معاشرے کا کمزور فرد ہے۔ عورت کو رسومات کی بھینت چڑھا کر یا جذباتی کرکے اُسے اُس کے حق وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اِس کیس میں محمد شریف نے وہ تین نکات جو کہ گفٹ کے لیے ضروری ہیں Offer, Acceptance, Delivery of Possession ثابت نہیںکر سکا۔یہ گفٹ ڈیڈ فراڈ پر مبنی ہے فیصلہ پٹیشنرز کے حق میں کیا جاتا ہے۔
اب ہم پشاور ہائی کورٹ کے بہت اہم فیصلے جس میں رواج کی بناء پر خواتین کو اُن کا وراثتی حصہ نہیں دیا جاتا اُس کی تفصیلات میں جاتے ہیں۔2016–YLR-23 – کے مطابق ریا ض احمد غیرہ بنام فقیر احمد کیس میں اہم فیصلہ جسٹس وقار احمد نے لکھا ہے۔ عام طور پر رواج ہے کہ عورتوں کو وراثت میں سے اُن کا حصہ نہیں دیا جاتا مدعا علیہ کا استدلال ہے کہ وراثتی زمین کا رواج کے مطابق انتقال ہوا ہے۔ جس رواج کی بات مدعا علیہ نے کی ہے اُس کا کہیں ریکارڈ نہ ہے۔ نہ ہی اُس علا قے میں غیر مسلم رہتے ہیں۔ اور وہاں پر یہ غیر اسلامی رواج بھی نافذ نہ تھا۔ قرانی احکامات کے ہوتے ہوئے غیر اسلامی احکامات پر عمل درآمد نہیں کروایا جاسکتا۔اِس کیس میں ریاض احمد اور دیگر پانچ لوگ پٹیشنرز ہیں۔ ٹرائل کورٹ نے ڈگری پٹیشنرز کے حق میں ہوئی کی بعد ازاں اپیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے ڈگری کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اِس کیس میں مسماۃ ذکیہ کے بیٹے اور بیٹیوں نے وراثت مانگی ہے ذکیہ کی ماں سیدہ ۔نواب خان کی بیٹی تھی سیدہ کا یک بھائی فقیر احمد تھا۔ جا ئیداد کا مالک ان دونوں پارٹیوں کا مورث اعلیٰ تھا جو کہ نواب خان تھا۔ نواب خان 1932 میں وفات پاء گیا تھا۔ نواب خان کا ایک بیٹا فقیر احمد اور بیٹی سیدہ تھے۔ سیدہ کی شادی خواجہ محمد سے ہوئی جو کہ شادی کے ایک سال بعد فوت ہوگیا ۔ سیدہ اپنے بھائی فقیر احمد کے گھر آگئی اور وہیں اُس کی بیٹی ذکیہ پیدا ہوئی۔ذکیہ موجود پٹیشنرز کی ماں ہے۔
(جاری ہے )