بھارت و امریکا کو تکلیف کیوں؟
شیئر کریں
حفیظ خٹک
امریکیصدرڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں۔ بھارت ان کی آئو بھگت اسی انداز میں کر رہا ہے جس انداز میں وہ کسی سربراہ مملکت کی کرتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارت سنبھالنے کے بعد بھارت پر عنایات دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہیں ۔اس لحاظ سے امریکی صدر کی حاحبزادی کا دورہ بھارت ہر نقطہ نظر سے ذومعنی ہے ۔ وطن عزیز پاکستان جو ابتداء سے اب تلک بھارت کے اکھنڈ بھارت کے خواب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ رکاوٹ وہ ہمیشہ رہے گا ، جس طرح اب تلک اکھنڈ بھارت کا خواب پورا نہیں ہوپایاہے امید ہے کہ پاکستانی عوام کھبی بھی ان کے اس خواب کو پورانہیں ہونے دینگے۔پاکستان کے حالات پر اور اس سے بھی بڑھ کر ان حالات میں بگاڑ کے لیے بھارت و امریکا مل کر منصوبہ بندی نہ صرف کرتے ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں ۔ دوسو سے زائد ممالک سب اس بات کو مانتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک نمایاں کاکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔اس کارکردگی پر سبھی ممالک پاکستان کے لیے نیک خواہشات و جذبات رکھتے ہیں لیکن بھارت اور امریکا اب تلک ان قربانیوں سے جو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دی ہیں وہ نہیں مانتے اور ڈو مور (Do More) کے لیے نعرہ زن رہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہو یا افغانستان کے حالات بھارت اب دونوں جانب سے پاکستان کی سرحدوں پر منظم منصوبندی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے عمل پیرا رہتا ہے۔ آئے روز سرحدوں پر بلاوجہ فائرنگ و گولہ باری کرتا ہے اور پاکستان کے شہریوں کو شہید و زخمی کرتاچلا جارہا ہے ۔ حکومت پاکستان اس صورتحال میں بھی ان کے سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر صرف احتجاج ریکارڈ کراتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارتی دہشت گردکلبھوشن یادیو جس نے پاکستا ن میں اپنی تمام تخریبی کاروائیوں کا اقرار کیا ، پاکستانیوں کے قتل ، بم دھماکوں کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا اس کے باوجود بھی حکومت نے اسے ابھی تک عزت دے رکھی ہے اور اسے سزائے موت نہیں دی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے اس بھارتی دہشت گرد کی اہلیہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور اب وہ دعوت ان کی والدہ کے لیے بھی ہو چکی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے اس مثبت صورتحال کے باوجود بھی امریکا ہر وہ بات کرتا ہے ، جو بھارت اسے بتاتا ہے ۔امریکا کا یہ اقدام نہایت قابل مذمت ہے۔
وطن عزیز ہی میں نہیں پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت مختلف ممالک کے افراد انفرادی و اجتماعی صورت میں کر رہے ہیں ۔ وہ علاقے جہاں ایسے افراد کی ایسی تنظیموں کی امداد پہنچتی ہے اس وقت ان کے کیا جذبات ہوتے ہیں اس کا اظہار تو وہی بہترین انداز میں کرسکتے ہیں ، تاہم تکلیف ان لمحوں پر نمایاں ہوجاتی ہے کہ جب ایسے افراد کو ایسی تنظیموں کو تنقید کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور بسا اوقات انہیں جیلوں تک میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ وہ مثبت کام جو ان افراد یا ان کے زیرانتظام جاری رہتے ہیں ، ان کی گرفتاریوں کے سبب متاثر ہوجاتے ہیں ،اس عمل سے انسانیت مزید دکھی ہوجاتی ہے لیکن انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کو ایسے ظالمانہ اقدام نظر نہیں آتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی بھی آواز بلند کرتاہے ۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ قیام پاکستان سے آج تلک حل نہیں ہوپایا ہے اور اب تو حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو سرد خانے کی زینت بنادیا ہے ۔اس مسئلے کے حل نہ ہونے میں بھارت کا کردار سب کے سامنے ہے اس کے باوجود خود کو سب سے بڑی جمہوری حکومت کہنے والے، انسانی حقوق کی باتیں کرنے والے، اسلامی و غیر اسلامی ممالک اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔ قابل حیرت ہے یہ بات کہ دو سے زائد ممالک کو ان کی عوام کو نیلسن منڈیلا تو نظر آتا ہے لیکن سید علی گیلانی نظر نہیں آتے، انہیں ملالہ یوسفزئی نظر آتی ہیں لیکن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نظر نہیں آتیں۔ انسانیت کی خدمت کرنے والا، مظلوم کشمیریوں کی آواز کو بلند کرنے والا برما کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کرنے والااور ان کے لیے آواز اٹھانے والا حافظ سعید نظر نہیں آتا۔ حافظ محمد سعید ، وہ فرد کی جس پر پاکستان کے کسی بھی تھانے میں کوئی مقدمہ نہیں ہے، حافظ سعید کہ جنہیں پاکستان کی عوام سے بڑھ کر کشمیر کی عوام جانتی اور چاہتی ہے۔ اس کے باوجود عالمی قوت نام نہاد امریکا اور اس کے سب سے بڑے حمایتی بھارت کو اس حافظ سعید سے نجانے کیا تکلیف ہے؟وہ دونوں مل کر حافظ سعید کی آزادی کے خلاف پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالتے رہتے ہیںاور پاکستان کی حکومت صرف ان کے کہنے پر حافظ سعید کو پابند سلاسل کردیتی ہے۔
اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ حافظ سعید کے اوپر کوئی مقدمہ نہیں ہے ، یہ بات وزیر اعظم ہی بتاسکتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کی حکومت کیونکر انہیں قید کرتی ہے؟ اس بار بھی حافظ سعید کو 9ماہ سے زائد عرصہ پابند سلاسل رکھا اور بالاآخر عدالت کے حکم پر انہیں باعزت رہائی دی گئی ۔اس فیصلے سے پوری قوم کو خوشی ہوئی اور اس کے ساتھ پوری کشمیری عوام کو بھی خوشی ہوئی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو جہاں بھی انسانیت کااحترام ہوتاہے وہاں حافظ سعید کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا گیا ۔لیکن اگر کہیں نہیں کیا گیا اور کہیں تکلیف ہوئی تو وہ بھارت اور امریکا دو واحد ممالک ہیں کہ جنہیں حافظ سعید کی رہائی پر بکت تکلیف پہنچی۔ دونوں ممالک نے حافظ سعید کی رہائی کے بعد ایک بار پھر حکومت پاکستان پر اپنے دبائو کو بڑھایا اور انہیں دوبارہ نظر بند کرنے کا مطالبہ کیا لیکن تاحال ان کے اس نام نہاد مطالبے پر حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیااور امید واسق ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گی۔
بھارت اور امریکا دونوں ممالک کو پاکستان میں امن و سکون وترقی ناقابل قبول ہے ۔ جب سے سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا ہے ان دونوں ممالک کو اب عمل سے شدید تکلیف پہنچی ہے جس کا اظہار وہ اپنے اقدامات اور خیالات سے بارہا کرتا رہاہے۔ بھارت و امریکا کسی بھی حال میں پاکستان کے اندر عوام کے سکون و اطمینان سے گذرتی زندگی ، تعمیر و ترقی کو نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی وہ کشمیر کو اظہار رائے کا حق دی سکتے ہیں ۔ بھارت جس کے اندر متعدد علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہاگر کشمیر کی آزادی دے دی گئی تو بھارت کا حال بھی اس کے ماضی کے بہترین دوست روس جیسا ہی ہوگا ۔ بھارت کا نہ تو اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہوگا اور نہ ہی یہ بھارت اسی حال میں اسی طرح سے رہے گا۔ روس تو اب بھی قائم و دائم ہے تاہم بھارت کاحال روس سے کہیں زیادہ بدترین ہوگا اور اس بھارت کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔اسی بھارت کی عوام جو آج ذات و پات میں محسور ہوکر اپنی زندگیوں کو گذار رہے ہیں ، وہ بھارت کی ابتری کے بعد بحسن و خوشی اپنی زندگیوں کو گذاریں گے۔ کشمیر بھی آزاد ہوگا اور اس کے بعدراجستھان بھی آزاد ہوگا ۔ بھارت اور اس کے ساتھ امریکا جو تکلیف ہے اس کا علاج صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ کشمیریوں پر اپنے مظالم کو بند کرے اور پاکستان کے خلاف اپنے منصوبوں کو بند کردے ۔ یہی عمل ان کے لیے مثبت رہے گا۔