پاکستان پیپلز پارٹی، عزم، قربانی اور جدوجہد کے 50 سال
شیئر کریں
نعمان شیخ
(چوتھی قسط)
اسٹیرنگ کمیٹی (Steering Committee)یعنی قیادت و رہنمائی کا فریضہ ارکان:۔
1) ( – زید اے بھٹو چیئرمین (2) ملک شریف (3) ڈاکٹر مبشر حسن (4) ملک اسلم حیات (5) عبدالرزاق سومرو (6) حکیم عبدالطیف (7) الٰہی بخش خان (8) میاں محمد اسلم (9) محمد صفدر (10) آفتاب ربانی
(2) آئینی کمیٹی (Constitution Committee)یعنی بہ سلسلہ پارٹی آئین اور طریق کار! ارکان:-(1) زید اے بھٹو چیئرمین (2) جے اے رحیم (3) خورشید حسن میر (4) ملک اسلم حیات (5) ملک حامد سرفراز (6)عبدالوحید کٹپر (7) ریاض الحق (8) محمد عرس (9) سعد محمد خان (10) میر محمد
حسین (11) شوکت علی لودھی (12) اقبال احمد۔
(3) قرار داد کمیٹی (Resolutions Committee)یعنی قراردادوں کا تعین اور پیش کرنا۔
ارکان:۔ (1) زیڈ اے بھٹو، چیئرمین (2) جے اے رحیم (3) میر رسول بخش تالپور (4) ملک حامد سرفراز (5) ڈاکٹر مبشر حسن (6) شیخ محمد رشید (7)معراج محمد خان (8) بیگم آباد احمد خان (9) مسٹر خورشید حسن میر (10) مسٹر محمد حیات خان۔
(4) اعلامیہ کمیٹی (Draft Declaration Committe)یعنی کنونشن کے اختتام پر متوقع اعلامیہ کی تیاری:-
ارکان:۔ (1) ذوالفقار علی بھٹو، چیئرمین (2) جے اے رحیم (3) ملک حامد سرفراز (4) شوکت خان جونیجو (5) غلام مرتضیٰ کھر (6) احمد رضا خان (7) حق نواز گنڈا پور (8) جہانگیر خان (9) فتح محمد جاگیردار (10) امداد حسین جمالی (11) احمد دہلوی۔
30نومبر 1967 کی صبح دس بجے، ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں کنونشن کا تیسراجلاس منعقد ہوا۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت مولوی غازی قدرت اللہ کو نصیب ہوئی، مسٹر اسلم گورداسپوری اور ڈاکٹر حلیم رضا نے اس اجلاس میں اپنی نظمیں سنائیں، ملک حامد سرفراز نے کمیٹیوں کی روشنی میں مختلف قراردادیں پیش کیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اردو میں مختصر خطاب کیا، بعد ازاں ملک حامد سرفراز نے شرکائے کنونشن کااپنے الوداعی خطاب میں شکریہ ادا کیا۔
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اس تاریخی موڑ پر ملک اسلم حیات نے سپاسنامہ پیش کیا۔ کنونشن میں بھٹو صاحب کی ناقابل فراموش تقریر کے چند جملوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا:’’میں اکثر اس امر پر حیران ہوتا ہوں کہ ہم آخر اتنی غیر یقینی صورتحال ہی میں ہمیشہ کیوں رہتے ہیں، کیا یہ قدرت نے ہماری تقدیر میں لکھ دیا ہے؟ آیئے، ہم دوسرے ممالک پر ایک نظر ڈال لیں، ان میں سے متعدد ملکوں کو بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑا اور ان میں سے اکثر اپنے ا ن مسائل کو کامیابی سے حل کر چکے ہیں جس کے بعد انہوں نے مختلف ارتقائی مراحل کی جانب توجہ کی جبکہ ہم آج بھی کم و بیش وہیں کھڑے ہیں جہاں 20برس پہلے (1967اور1947کے مابین 20برس ہی بنتے ہیں) ایک سنسنی خیز تجسس کے عالم میں تھے آج بھی وہیں ہیں۔
آج سے 50سال قبل، 30نومبر 1967 ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ایک نئی سیاسی پارٹی کے سنگ بنیاد رکھنے والے دو روزہ تاسیسی کنونشن کا اختتام ہو ا تھا۔ تقریباً 300 افراداس اجتماع میں شریک تھے جس میں اس پارٹی کی بنیادانقلابی سوشلزم پر رکھی جارہی تھی، سب ہمت اور حوصلے سے سرشار تھے
لیکن بہت کم مندوبین کو امید تھی کہ اتنے تھوڑے عرصے بعد پاکستان پیپلز پارٹی ابھر کر ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور محنت کش طبقے کی آواز بن جائے گی۔
پیپلز پارٹی کے اس تاسیسی اجلاس کے صرف 11 ماہ بعد اس ملک کی تاریخ کا پہلا اور اب تک کا سب سے بڑا انقلابی ریلا اٹھا۔ 6 نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک کے 139 دنوں میں عملی طور پر طاقت حکمران ایوانوں سے نکل کر گلیوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں امڈ آئی۔آج تقریباً آدھ صدی بعد نہ صرف نئی نسل ان تاریخ ساز نظریات اور واقعات کی آگاہی سے محروم ہے بلکہ آج کی پیپلز پارٹی کا بھی شاید ہی کوئی لیڈر ایسا ہو گا جس نے پارٹی کی بنیادی دستاویزات کا مطالعہ کیا ہو۔ وہ منشور، جس نے 1968-69ء کا انقلاب جیت کر ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی میں ڈال دیا تھا،اس کے چند کلیدی نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
(جاری ہے)