میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دنیا میںارب پتی افراد کی تعداد 15 سو سے بڑھ گئی

دنیا میںارب پتی افراد کی تعداد 15 سو سے بڑھ گئی

ویب ڈیسک
هفته, ۱۸ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نئے ارب پتی افرادمیں زیادہ تعدادجنوبی ایشیاکے باشندوں کی ہے‘جس میں چوتھائی تعدادکاتعلق چین اوربھارت سے بتایاجاتا ہے
دولت مندوں کی مجموعی تعداد میں امریکادوسرے نمبراوریورپ تیسرے نمبرپرآتاہے ‘امیرترین لوگوں کی اکثریت ٹیکس بھی نہیں دیتی
دنیاکے 62 امیر ترین افراد کے پاس اتنی دولت ہے جتنی باقی دنیا کی نصف آباد ی کے پاس ہے‘اس میں مسلسل اضافہ ہوتاچلاجارہاہے
تہمینہ حیات
دنیا بھر میں نہ صرف ارب پتی سرمایہ داروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی مجموعی دولت بھی بڑھی ہے۔ یہ اضافہ 6 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔گذشتہ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد میں 15 سو سے بڑھ گئی ہے جو سن 2015 کے مقابلے میں 10 فی صد زیادہ ہے۔جمعرات کو ارب پتی افراد کے بارے میں جاری ہونے والی رپورٹ کے بارے جریدے پی ڈبلیو سی اور سوئٹزرلینڈ کے ایک بڑے بینک یو بی ایس نے کہا ہے کہ نئے ارب پتی افراد میں زیادہ تعداد جنوبی ایشیاء کے باشندوں کی ہے۔یوبی ایس اور پی ڈبلیوسے کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ اس سال کے دوران ایشیائی ارب پتی دولت مندوں کی تعداد امریکی سرمایہ داروں سے بڑھ گئی۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ایشیا میں 637 دولت مند ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے سرمائے کے مالک ہیں جب کہ ارب پتی امریکی 563 کے ہند سے کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ایشیا میں سب سے زیادہ ارب پتی چین میں ہیں۔مال داروں کی فہرست میں یورپ تیسرے نمبر پر چلا گیا ہے اور اب وہاں 342 ارب پتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے دنیا بھر میں نہ صرف ارب پتی سرمایہ داروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی مجموعی دولت بھی بڑھی ہے۔ یہ اضافہ 6 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔دنیا کے امیر ترین افراد کا یہ گروپ 1542 دولت مندوں پر مشتمل ہے۔ ان کی اکثریت کمپنیاں اور کاروبار چلاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان امیروں کی کمپنیوں میں 2 کروڑ 77 لاکھ سے زیادہ افراد ملازم ہیں جو اپنی محنت سے ان کے لیے دولت کماتے ہیں۔اگر چہ امیر اور غریب کا فرق دنیا بھر میں ایک بڑا سیاسی مسئلہ ہے اور اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے لیکن یوبی ایس اور پی ڈبلیو سی کی رپورٹ میں حیران کن انکشاف کیا گیا ہے کہ امیر ترین افراد کی دولت کا سب سے زیادہ فائدہ غریبوں کو پہنچ رہا ہے اور اگلے دو عشروں کے دوران ان کی دولت میں سے دو اعشاریہ چار ٹریلین ڈالر کے عطیات غریبوں کی فلاح و بہود سے متعلق پروگراموں پر صرف ہوں گے۔گذشتہ سال کے دوران دنیا بھر میں جن ارب پتی افراد کا اضافہ ہوا ہے، ان کی تین چوتھائی تعداد کا تعلق صرف دو ملکوں چین اور بھارت سے ہے۔ انڈیکس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے 400 امیر ترین افراد کے مجموی اثاثوں میں سے 124 ارب ڈالر ڈوب گئے اور اب ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 3.86 کھرب ڈالر ہے۔
اوکسفوم کے مطابق، اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومتیں کمپنیوں اور امیر افراد سے ٹیکس وصول کریں، اگر عالمی سربراہان 2030 تک انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنے میں واقعی پْر عزم ہیں، جو کہ مقررہ پائیدار ترقیاتی اہداف کا ایک حصہ ہے، جسے ستمبر میں طے کیا گیا تھا۔
بین الاقوامی عطیات سے وابستہ ادارے، ’اوکسفوم‘ کا کہنا ہے کہ دنیا کے 62 امیر ترین افراد کے پاس اتنی دولت ہے جتنی باقی دنیا کی نصف آبادی کے پاس ہے، ایسے میں جب امیرترین لوگ امیر تر، جب کہ غریب، غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔5برس قبل، دنیا کے 388 افراد کے پاس اتنی دولت تھی جتنی آج دنیا کی نصف آبادی کے پاس۔اوکسفوم کا کہنا ہے کہ جب کہ دنیا کی غریب ترین آبادی کی دولت، جو 2010 کے بعد 3.6 ارب ڈالر سے زیادہ تھی، وہ ایک ٹریلین ڈالر کی مالیت تک کم ہوگئی ہے، یا یوں کہیے کہ 41 فی صد کم ہوگئی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ امیر ترین افراد کی دولت تقریباً نصف ٹریلین ڈالر تک بڑھی ہے۔گروپ نے یہ اعداد و شمار سوٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی صنعتی فورم کے اجلاس کے موقع پر جاری کیے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امیر ترین افراد میں سے تقریباً نصف لوگوں کا تعلق امریکہ سے، 17 کا یورپ سے، جب کہ باقی افراد کا تعلق چین، برازیل، میکسیکو، جاپان اور سعودی عرب سے ہے۔
اس رپورٹ کے ہمراہ، اوکسفوم کی بین الاقوامی منتظمہ، وِنی بیانیما کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔ بیان میں اْنھوں نے بتایا کہ بڑھتے ہوئے عدم مساوات کے بحران پر، عالمی رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا ہے، جس پر ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ اب دنیا مزید غیر مساوات کی شکار ہوگئی ہے اور یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ڈیوس میں کی جانے والی گفتگو میں عدم مساوات پر بات ہوا کرتی ہے، اوکسفوم نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ صرف زبانی کلامی طور پر ماننے کے علاوہ اس معاملے پر دھیان دیا جائے، اگر وہ واقعی غربت میں کمی لانے کے اہداف کے حصول میں پْرعزم ہیں۔بیانیما کے بقول، ’ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم کروڑوں لوگوں کو بھوکا رہنے دیں، جب کہ وہ وسائل جو اْن کے بھلے کے لیے کام میں لائے جاسکتے ہیں، اْنھیں امیر ترین طبقہ اپنے جانب کھینچتا رہے۔ دیانیما نے گذشتہ سال ڈیوس کے اجلاس کی نائب صدارت کے فرائض انجام دیے تھے۔اْنھوں نے کہا کہ محصول اکٹھا کرنے کا معاملہ نظام کا بیکار جْزو بن چکا ہے، جس میں بڑے کاروباری اداروں اور امیر افراد کو ٹیکس کا اپنا حصہ نہ ادا کرنے کا بہانہ میسر آتا ہے۔اوکسفوم کے مطابق، اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومتیں کمپنیوں اور امیر افراد سے ٹیکس وصول کریں، اگر عالمی سربراہان 2030ء تک انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنے میں واقعی پْر عزم ہیں، جو کہ مقررہ پائیدار ترقیاتی اہداف کا ایک حصہ ہے، جسے ستمبر میں طے کیا گیا تھا۔اوکسفوم کے خیال میں امیر ترین لوگوں کی 7.6 ٹریلین کے قریب دولت بیرونِ ملک جمع ہے، جو مجموعی عدد کا 12 فی صد ہے، اور یہ کہ اگر اور نہیں تو اِسی دولت پر ٹیکس ادا کی جائے تو غربت کے انسداد کی کوششوں کے لیے تقریباً 190 ارب ڈالر کی رقم میسر آئے گی۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی اسٹاک مارکیٹ کے بحران نے دیگر ملکوں کی معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے سے جاری شنگھائی انڈیکس میں مندی کے رجحان کے نتیجے میں دنیا بھر میں سرمایہ کار اربوں ڈالر کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔بلوم برگ بلینئیرز انڈیکس کے مطابق شنگھائی اسٹاک مارکیٹ میں کمی اور چینی معیشت کی سست روی کے منفی اثرات پیر کے روز بھی عالمی مارکیٹوں میں دیکھے گئے۔دنیا بھر کے بلینیئرز افراد کے لیے پیر (سیاہ دن ) ثابت ہوا, جس میں 400 امیر ترین لوگوں نے ایک بار پھر سے مارکیٹوں میں اپنے اربوں ڈالر کھو دیے۔انڈیکس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیر کے روز دنیا کے 400 امیر ترین افراد کے مجموی اثاثوں میں سے 124 ارب ڈالر ڈوب گئے اور اب ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 3.86 کھرب ڈالر ہے۔تفصیلات کے مطابق بلوم برگ نے دنیا کے ارب پتی لوگوں کے اثاثوں کا تجزیہ مارکیٹ کی حالیہ صورتحال اور موجودہ اقتصادی تبدیلیوں کی بنیاد پر کیا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق بدترین مندی کے نتیجے میں دنیا کے 24 بلینیئرز ایک ہی دن میں اپنی اربوں کی دولت سے محروم ہوگئے۔ٹیکنالوجی مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی اور دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے ایشیا کے امیر ترین شخص وانگ جے لن کے بعد مارکیٹوں میں سب سے بڑا نقصان برداشت کیا ہے۔ بل گیٹس کی دولت میں پیر کو 3.2 ارب ڈالر کی کمی دیکھی گئی ہے، ان کے کل اثاثوں کی مالیت 82.4 ارب ڈالر ہے۔ایمیزون کے بانی اور سی ای او جیف بیزوز کی دولت میں سے 2.6ارب ڈالر ڈوب گئے۔میکسیکو میں ٹیلی کام سیکٹر کے سرمایہ کار لارلوس سلم حالیہ مندی کے نتیجے میں پیر کو 1.6 ارب ڈالر سے محروم ہوگئے اور ان کے اثاثوں کی مالیت 2012 کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ان کی کل دولت 58.7 ارب ڈالر ہے۔فیس بک کے شریک بانی مارک زکرک برگ کے مندی کے نتیجے میں 1.7 ارب ڈالر مارکیٹوں میں ڈوب گئے ہیں۔تازہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے 200 امیر ترین لوگوں نے اسٹاک مارکیٹوں میں کاروبار کی کمی کی وجہ سے مجموعی طور پر 94.2 ارب ڈالر کا گھاٹا برداشت کیا ہے جو مجموعی طور پر 2.9 کھرب ڈالر کی دولت پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان میں الولید السعود قابل ذکر ہیں ،جنھوں نے 169 لاکھ ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔
ایشیا کے امیر ترین سرمایہ کار وانگ جے لن نے چین کی اسٹاک مارکیٹ میں اربوں کا نقصان اٹھایا۔ حالیہ مندی کے بعد سے اب تک مارکیٹوں میں ان کے 3.6 ارب ڈالر ڈوب گئے ہیں۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ چینی معیشت کی غیر یقینی صورتحال اور بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے رقمیں نکالے جانے اور حصص کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی وجہ سے عالمی مارکیٹوں میں حصص کی رسد میں اضافہ اور حصص کی قیمت گر گئی ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہوگئی ہیں۔چین پچھلی دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقتصادی ترقی اور عالمی سطح پر کم افراط زر کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، تاہم گذشتہ بربس چینی معیشت کی شرح نمو 7.4 فیصد کم رہی جو 1990 کے بعد کی کم ترین شرح تھی اور اس برس بہتری کی شرح مزید کم ہوئی۔چین کی مرکزی اسٹاک مارکیٹ 2007 کے بعد سب سے بڑی مندی کا شکار ہوئی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی حکومت کی جانب سے اس ماہ کے اوائل میں چینی کرنسی (یوآن) کے سستے کیے جانے کے فیصلے نے عالمی سطح پرخدشات کو جنم دیا ہے کہ معیشت میں اصل بہتری شاید اس سے کم ہے جبکہ چینی معیشت میں سستی کی وجہ سے دیگر معیشتوں کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔
٭ ٭ ٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں