دلی تیرا شکریہ
شیئر کریں
(دوسری قسط)
اتنا ہی نہیں عوام پوچھتی ہے کہ سیکیورٹی اداروں اور دفاتر سے دور جن علاقوں میں یہ وارداتیں انجام دی جا چکی ہیں وہاں واردات ہوتے ہی فوج اور پولیس کس طرح پہلے سے موجودہو کر اپنے نازل ہونے کا اظہار کرتی ہے ؟یہ سانحات جہاں بھی ہوئے اور لوگوں نے کسی کو پکڑ بھی لیا تووہاں بلا تاخیر کوئی نا کوئی فوج یا پولیس پارٹی کس طرح ظاہر ہو جاتی تھی؟ اور پھر ان کے ظاہر ہونے کی تاویل کی جاتی ہے آخر کیوں؟18اکتوبر 2017ء کو اسلام آباد کے ایک گاؤں ’’صوفی پورہ ولرہامہ ‘‘میں صبح سویر ے ایک لڑکی کے بال کاٹے گئے صوفی پورا والوں کی چیخ و پکار سے ولرہامہ کا پورا گاؤں سڑک پر نکل آیا ۔گاؤں والوں نے اپنے گاؤں کے بیچوں بیچ نکلنے والی پہلگام روڑ کو دونوں جانب جب بند کیا تو پتہ چلا کہ سیکیورٹی فورسز کاموبائل بنکر گاؤں میں موجود ہے۔عوام نے اس کو روک کر جب انھیں ملزم کو نیچے اتارنے کا تقاضا کیا تو انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے نو افراد کو شدید زخمی کردیا جن میں کئی کو آپریشنز کے بعد بچا لیا گیا ہے ۔شام کو میڈیا کے نام جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ گاؤں میںعسکریت پسند موجود تھے جبکہ بیس کلومیٹر کے علاقے میں کوئی بھی مقامی ملی ٹینٹ موجود نہیں ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں کام کر رہے سیکیورٹی ادارے بے سروپا باتیں کر کے کیا بیغام دینا چاہتے ہیں ۔عوام سمجھتی ہے کہ یہ دلی کی وہ پالیسی ہے جس سے وہ اولاََعوام کی توجہ تحریک آزادی سے ہٹانا چاہتی ہے دوم کشمیریوں کو عدم تحفظ کا احساس دلا کر پولیس کے قریب لانے کی غیر حکیمانہ کوشش ہے جس سے متعلق2010ء کے بعد اب 2016ء میں خوفناک غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں ۔سوم عدم تحفظ کے رویے سے کشمیری عوام کو ہند نواز لیڈروں کی چوکھٹ پا لاکر تحفظ کی بھیک مانگنے کی بے کار کوشش۔
یہی وہ المیہ ہے جو بھارت اب تک سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ اس طرح کی انتہائی مضر پالیسیاں اپناتے ہو ئے کشمیریوں کی نفرت میں مزید اضافے کا موجب بن رہا ہے ۔ ان نااہل پالیسی ساز اداروں کو کشمیریوں کی ذہنیت اور غالب رجحان ستر برس گزر جانے کے باوجود سمجھنے میں غلطیوں پر غلطیاں ہو رہی ہیں ۔وہ یہ تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر میں ان کی پالیسیاں نا صرف ناکام ہیں بلکہ اس کا ہر جز الٹا اثر ڈال رہی ہے ۔کشمیریوں کی نئی نسل اگر آزادی کے پس منظر کے برعکس اپنے کسی حق کے لیے بھی سڑکوں پر آتی ہے تووہ وہاں بھی آزادی ہی کے حق میں نعرہ بازی کرتی ہے ۔گیسو تراشی کے واقعات جہاں بھی ہو ئے وہاں مجرمین کو بے نقاب کرنے کے مطالبے کے ساتھ ہی ساتھ’’مطالبہ آزادی‘‘کا نعرہ ہی کیوں غالب رہا ؟کیا دلی والے اس بات کو سمجھنا گوارا کریں گے؟ماضی کو دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسا فی الحال ممکن نہیں ہے اس لیے کہ دلی کے پالیسی ساز اداروں پر دو خود غرض عناصر کی گہری چھاپ اب تک موجود ہے نمبر ایک کشمیری پنڈت نمبر دوم جموں و کشمیر کی بھارت نواز لیڈر شپ جو کسی بھی پالیسی کو اولاََ اپنے ذاتی مفاد کے آئینے میں دیکھتی ہے ثانیاََ بھارتی مفادات کو ۔ ایک بات کے لیے پاکستان ،حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند تحریکات کو ’’دلی تیرا شکریہ‘‘کہنا چاہیے کہ کشمیریوں کے جذبہ
آزادی کو زندہ رکھنے کا جتنا کام اس کی پالیسیاں انجام دیتی ہیں شاید کھربوں ڈالر خرچ کر کے ایسا ممکن نہیں ہے ۔ بیمار ذہنیت اور بدترین دیوالیہ پن کی اسے زیادہ بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز پر روزانہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پتھراؤ پاکستان کرارہا ہے اور حریت والے پاکستان کے ٹٹو ہیں اوردوسری ہی سانس میں کہا جاتا ہے کہ حریت کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی ہے اب جب حریت نے دنیشور شرما سے بات نا کرنے کا فیصلہ لے لیا تو حریت کو کوسا جا رہا ہے ؟حریت نمائندہ نہیں ہے تو دلی کے ’’غلام میڈیا‘‘کو خوش ہونا چاہیے کہ بجائے اس کے ہم بدنام ہوتے حریت نے ہی ’’نا‘‘کہہ کر میدان صاف کردیا بلکہ الٹے درجن بھر مباحثے اب تک اس مسئلے پر ہو چکے ہیں کہ حریت کو دینشور شرما سے مذاکرات کرنے چاہیے اور نا کہہ کے دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے ؟ہم حیران ہیں کہ مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر براجمان یہ اینکر کس مٹی کے بنے ہیں !کیا یہ کبھی اپنی ’’ہفوات ‘‘پر مبنی باتیں دوبارہ سننا گوارا کرتے ہیں ؟نہیں اور یقیناََ نہیں اس لیے کہ جس ملک کے حکام اعلیٰ کی سوچ اور اپروچ میں شدید تضاد ہو وہاں کے میڈیا اور بیروکریسی کے عقل شعور پر اس کے منفی اثرات مرتب یقینی امر ہے ۔
2016ء کی’’ پر تشدد تحریک‘‘میں وزیر داخلہ ایک بڑے پارلیمانی گروپ کے ساتھ مذاکرات کے نام پر وادی کشمیر میں داخل ہو ا ۔چند ایک نجی حیثیت میں سید علی گیلانی ،عمر فاروق ،شبیر احمد شاہ اور دیگر لیڈران سے ملنے ان کے گھر گئے جہاں لیڈران نے 2010ء میں کی گئی لاحاصل بات چیت کا حوالہ دیکر بات کرنے سے انکار کردیا ۔تو وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک ہی پریس کانفرنس میں تین باتیں کہیں ایک یہ کہ یہ لوگ حریت والوں کے پاس ذاتی حیثیت میں ملنے گئے تھے دوم حریت نے ’’بات چیت ‘‘سے انکار کر کے بہت بڑی غلطی کی ،سوم یہ پارلمنٹیرینز کی توہین ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آگ و آہن میں لت پت کشمیر میں بڑی دیر بعد جب ایک گروپ ملنے آیاتو اس میں’’ بنیادی مخالفین‘‘سے ملاقات کے لیے جانے والے پارلمنٹیرینز کی نجی حیثیت کیا تھی؟ہاں اگر وہ نجی حیثیت میں آئے تھے تو نجی حیثیت میں انکار پر وزیر داخلہ مشتعل کیوں ہوا اور واویلا نواز میڈیا پر ہاہا کار کیوں مچی؟اور اس کو توہین پر محمول کیوں کیا گیا؟جن مین اسٹریم والوں سے مل کر یہ لوگ گزشتہ ستر برس سے مل کر دلی سدھارجاتے ہیں ان سے باربار مل کر بھی مسئلہ اپنی جگہ زندہ کیوں ہے؟آخر اختلاف جس کے ساتھ ہے اس کی پوزیشن ’’ایک سانس میں مان کر اور دوسرے سانس میں نا مان کر‘‘ دلی کے حکمران اپنے اوپر لوگوں کو ہنسنے کا موقع کیوں دیتے ہیں اور اٹھائیس برس کی طویل مدت سے تحریک کے مرجانے کے خواب میں غلطاں دلی والے اپنے حواس پر رونے کے بجائے شجاعت بخاری صاحب سمیت ان تمام کشمیری پینلسٹوں کو مرثیہ لکھنے پر مجبور کیوں کرتے ہیں جو سمجھاتے سمجھاتے تھک چکے ہیں کہ ’’جناب والا! آپ کا اختلاف جہاد کونسل اور حریت نواز لیڈران سے ہے مین اسٹریم سے نہیں اور آخر اتنی موٹی سی بات آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے جو کشمیر کے پرائمری کلاس کا بچہ سمجھ جاتا ہے ۔سچائی یہ ہے کہ دلی والے چانکیائی اصولوں کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے گوبلز کی روح کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں کہ ایک جھوٹ سو بار کہو تو وہ سچ بن جائے گا مگر اس اصول کو اپناتے ہوئے ماضی میں بہت سوں کو عارضی کامیابی ضرور ملی مگر اب خود گوبلز کی قوم اس پریہ کہہ کر لعنت بھیجتی ہے کہ جھوٹے اور مکار نے ہماری نسلوں کو برباد کیا جس کا کھٹا پھل اب ہم کھا رہے ہیں اس لیے کہ یہ عالم غیر اصولی سیاست پر کچھ عرصہ ضرور چل سکتاہے ہمیشہ کے لیے نہیں ۔بہتریہ ہے دلی سچائی کا سامنا کرتے ہو ئے اصل مسئلہ سمجھنے میں دیر نا کرے تاکہ کشمیر کے ساتھ ساتھ سواارب آبادی ایک پریشان کن صورتحال سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔
(ختم شد)