پاناما زدہ حکمرانوں کو اقامہ زدہ بنانے والے عدالتی فیصلے کا جائزہ
شیئر کریں
(دوسری قسط)
سپریم کورٹ نے پانامہ فیصلے کیخلاف نوازشریف کی طرف سے دائر نظرثانی کی درخواستوں سے متعلق مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران بنچ نے ارکان کو فیصلہ پر نظرثانی کرنے کے لیے قائل نہیں کیا جاسکا۔ یاد رہے نظرثانی کی درخواستوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجازالحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی تھی۔ عدالت نے قبل ازیں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے نظرثانی کی تمام درخواستیں خارج کردی تھیں۔ 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب ادارے کام اپناکام نہ کریں تو سپریم کورٹ اس حوالے سے ہدایت دے سکتی ہے۔ درخواست گزار جان بوجھ کراثاثے چھپانے کے مرتکب پائے گئے، بادی النظر میں مریم نواز، لندن فلیٹس کی بینیفیشل مالک ہیں، یہ تسلیم نہیںکیا جاسکتاکہ لندن پراپرٹی سے کیپٹن صفد رکاکوئی تعلق نہیں تھا۔ عدالتی فیصلے پرعملدرآمدکی روشنی میں نیب میں کیسوں کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ جج کا تقرر ٹرائل پر اثرانداز ہونا نہیں اور نہ ہی نئی بات ہے، مقصد شفاف ٹرائل کو یقینی بنانا تھا، ٹرائل کورٹ عدالت کی کسی آبزر ویشن سے متاثر ہوئے بغیر ریفرنسز کافیصلہ کرے اور اگر شواہد کمزور ہوں توٹرائل کورٹ ان کو مسترد کر سکتی ہے۔
پانامہ فیصلہ میں کسی غلطی یا سقم کی نشاندہی نہیں کی گئی جس پر نظرثانی کی جائے، احتساب عدالت شواہد کی نوعیت پر اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے، ٹرائل کورٹ ضعیف شواہد کو رد کرنے کا فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے۔ نوازشریف کی نااہلی سے متعلق حقائق غیرمتنازعہ تھے، یہ نہیں کہا
جاسکتا ہے کہ فیصلے سے نوازشریف کو حیران کر دیا گیا۔ فیصلہ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ تحریری نوٹ لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ جس نتیجہ پر میں پانامہ کیس میں پہنچے تھے اس پر قائم ہیں، نظرثانی میں کوئی شواہد، کوئی نئے سوالات اور کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس پر اصل پانامہ کیس کے فیصلے میں ترمیم کی جاتی، ساتھی ججز نے بھی نظرثانی مسترد کرنے کے حوالے سے اپنا موقف دیا لہذا نظرثانی اپیل مسترد کردی گئی۔
عدالت نے فیصلہ 15ستمبر کو محفوظ کیا تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ نواز شریف کبھی سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجربنچ نے پانامہ نظرثانی فیصلہ کے صفحہ نمبر 23 پر آبزرویشن دی کہ درخواست گزار نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر عوام کو بے و قوف بنانے کی کوشش کی حتیٰ کہ سپریم کورٹ کو بھی بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی رہی اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس بھی تھا۔ آبزویشن میں مزید کہا گیا کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور کچھ لوگوں کو ہمہ وقت کے لیے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن سارے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا، نوازشریف کو نااہل قرار دینے کے لیے جو شہادتیں آئین وہ ٹھوس اور غیر متنازع ہیں، نوازشریف باہمی اتفاق سے ہونے والے نوکری کے معاہدہ میں ایف زیڈ ای کمپنی سے ’’تنخواہ‘‘ لینے کے حق دار تھے، یہ مستقبل کی بات نہیں بلکہ (ماضی) کے اس معاہدے کی بات ہے جس کے تحت وہ (نوازشریف) ساڑھے 6سال تک تنخواہ لیتے رہے جو ان کے اکائونٹ میں آکر اکٹھی ہوئی، یہ موقف غلط ہے کہ بینک اکائونٹ میں آنے والی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ نہیں تھی، وہ اثاثہ شمار ہوگی، چاہے اسے نکالا جائے یا نہ نکالا جائے۔ فیصلہ میں ایک شعر بھی تحریر کیا گیا
کہ ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت کو چھ ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ کرنے کی ہدایت سے ٹرائل متاثر نہیں ہو گا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ پانامہ فیصلہ میں دی گئیں آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہیں، عدالت نے کہا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے معاملے کا محتاط ہوکرجائزہ لیا، فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب، آئی بی، سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک میں اعلی شخصیت کا اثر و رسوخ ہے، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی میں بھی اعلی شخصیت کا اثرورسوخ ہے، نیب کو جے آئی ٹی کی تحقیقات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مفروضوں پر مبنی جوابات ہمیشہ مددگار ثابت نہیں ہوتے، قسمت کی طرف سے کسی کو حکمرانی کا موقع مل رہا ہے تو اس کا کردار کسی شک و شبہ سے بالا ہونا چاہئے۔
نواز شریف نے تنخواہ کو اثاثہ نہ ماننا اور ٹرسٹ کے حوالے سے ایک ایسے تحریری فونٹ میں درخواست اور ثبوت دینا جو اس پر تحریر تاریخ سے ایک سال بعد عام ہو اس آفس کی توہین ہے۔ نواز شریف نے جان بوجھ کر اثاثے چھپائے، نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی دیا۔ کاغذات میں تمام اثاثے بتا نا قانونی ذمے داری ہے، امیدوار نے عوام کی قسمت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، منتخب رکن کو اس معاملے پر رعایت دینا سیاست میں تباہی ہو گی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اثاثوں میں غلطی حادثاتی یا غیر ارادی طور پر ہوئی۔ عدالت نہیں چاہتی کہ معاملہ کسی کے حواریوں کے پاس جائے، اقامہ کے معاملہ پر آنکھیں بند نہی کر سکتے۔ نواز شریف کے اقامہ کو کاغذات نامزدگی میںظاہر نہیں کیا گیا۔ اقامے کو اس لیے نظرانداز نہیں کیا کیونکہ یہ وزیراعظم کا معاملہ تھا، نواز شریف عدالتی سوالات کا جواب دینے میں مخلص نہیں تھے، نواز شریف کبھی سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔
سپریم کورٹ کے اِس فیصلے نے ملکی سیاست میں طوفان برپا کردیا ہے ۔ اِس نظرثانی اپیل کے مین فیصلے میں نواز شریف کی نااہلی اور اِس نظرثانی کی پٹیشن میں جسٹس طارق کھوسہ کا یہ کہنا کہ میاں نواز شریف نے پوری قوم کو بے وقوف بنایا ہے۔ یقینی طور پر سٹیٹس کو میں بہت بڑابھونچال ہے۔ شاید پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں کوئی بہتری آسکے۔ اللہ پاک پاکستان پر اپنا کرم فرمائے آمین۔
(ختم شد)