پاکستان میں صحت کی سہولتوں کافقدان ، مریض مسیحاؤں کے منتظر
شیئر کریں
مریضوں کے معائنے کے حوالے سے دنیا کا بدترین ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ڈاکٹر اوسطاً ایک مریض کو محض 48 سیکنڈزد یکھتا ہے
پاکستان میں ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں کے معائنے کی صورت بنگلہ دیش کے مقابلے کچھ بہترپربھارت کے مقابلے میں کم ہے
اتائی ڈاکٹروں اورپرائیویٹ اسپتالوں نے مریضوں کاجینا حرام کررکھاہے ‘ادویہ سازکمپنیاں الگ ستم ڈھانے میں مصروف نظرآتی ہیں
سندیافتہ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ اورلوٹ مار نے بھی پاکستان میں عام لوگوں پر بہت برے اثرات مرتب کررکھے ہیں
مریض اور ڈاکٹر میں رشتہ داروں جیسا تعلق نہیں‘ پھر بھی مریض رشتے داروں سے زیادہ بھروسہ معالج پر کرتا ہے‘یہاں معاملہ مختلف ہے
شہلا حیات
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نہ صرف صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے، بلکہ وہ مریضوں کے معائنے کے حوالے سے بھی بدترین پوزیشن پر موجود ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی سخت قلت ہے، تاہم ایک حالیہ عالمی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان مریضوں کے طبی معائنے کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک ہے۔خیال رہے کہ پاکستان میں 21 کروڑ سے زائد افراد کے لیے سال 2014 کے آخر تک رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار 600 تھی۔
جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (جے پی ایم اے) کے مطابق پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے طلبہ کے داخلہ لینے کی شرح تو زیادہ ہوتی ہے، لیکن ان طلبہ سے ڈاکٹرز بننے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔سائنس جرنل بی ایم جے میں شائع ایک مضمون کے مطابق مریضوں کے معائنے کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 67 ممالک میں دوسرا بدترین ملک ہے۔
مریضوں کے معائنے کے حوالے سے دنیا کا سب سے بدتر ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اوسطا ایک مریض کو محض 48 سیکنڈز تک ہی دیکھ پاتا ہے۔ان 48 سیکنڈز میں ڈاکٹر نہ صرف مریض کی بیماری کا اندازہ لگاتا ہے، بلکہ اسے صحت مند ہونے کے لیے دوائیں تجویز کرنے سمیت اسے اب تک کی صورتحال سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مریضوں کے معائنے کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک پاکستان ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اوسطا ایک مریض کو ایک منٹ 13 سیکنڈز تک دیکھ پاتا ہے۔یعنی پاکستانی ڈاکٹرز بنگلہ دیشی ڈاکٹرز کے مقابلے اپنے مریضوں کو 63 سیکنڈ اضافی وقت دیتے ہیں۔اسی طرح 67 ممالک میں مریضوں کے معائنے کے حوالے سے بھارت تیسرا بدترین ملک ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اوسطا ایک مریض کو 2 منٹ تک دیکھتا ہے۔
مریض اور ڈاکٹر میں رشتہ داروں جیسا تعلق نہیں ہوتا مگر پھر بھی مریض رشتے داروں سے زیادہ بھروسہ اپنے معالج پر کرتا ہے۔ مریض کبھی یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا معالج اس کی غلط تشخیص کرے گا۔ مریض یہ سوچ کر اسپتال جاتا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے معالج کی ادویہ سے صحت یاب ہوجائے گا۔ لیکن افسوسناک خبر یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر شہروں خاص طورپرسندھ اور بلوچستان کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں اکثر معالج مریضوں کو اپنا گاہک سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ معالج اور ادویہ ساز کمپنیوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ یہ گٹھ جوڑ مریضوں کے لیے وبال جان بن رہا ہے۔
پاکستان میں اتائی ڈاکٹروں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی بھرمار نے مریضوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہ ہسپتال ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کو ہر ماہ کروڑوں کا منافع کما کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی میڈیکل اسٹور کے مالک سے جعلی دواؤں یا دواساز کمپنی کی ساکھ کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ کون سی ادویہ اچھی کمپنی کی ہیں اور کون سی بْری اور نقلی کمپنی کی۔ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان میں عام لوگوں پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج بھی پاکستان کے بیشتر دور دراز علاقوں میںروایتی دیسی علاج معالجہ بھی کیاجاتا ہے جو مختلف جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں تو یہ طریقہ علاج جو ہربل طریقہ علاج کہلاتا اس اعتبار سے بہت اچھا ہے کہ ایک طرف اس کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں کے غریب لوگوں کو ان کے گھر کے قریب علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہوجاتی ہیں اور اس طریقہ علاج کے تحت استعمال کرائی جانے والی دیسی جڑی بوٹیوں سے بنائی گئی ادویہ عام طور کوئی منفی اثرات بھی مرتب نہیں کرتیں لیکن یہاں بھی معاملہ تجربہ کار اور اناڑی معالج کا ہوتاہے اور بعض اوقات اناڑی معالج کے ذریعے کرایا گیایہ علاج غریب لوگوں کیلیے موت کا سبب بن جاتاہے۔
حکومت پانچ سال میں ایک ڈاکٹر کی تیاری پر لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے مگر جب ان ڈاکٹروں کو ڈگری اور سرکاری نوکریاں دی جاتی ہیں تو یہ لوگ اپنا کلینک کھول لیتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں وقت نہیں دیتے کیونکہ ان میں سے بیشتر کا مقصد صرف اور صرف پیسے اکٹھے کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں حکومت بلوچستان نے سرکاری ہسپتالوںکے لیے بھرتی لیے گئے ڈاکٹروں کا سروس اسٹرکچر منظورکیاہے جس کے تحت فی ڈاکٹر تنخواہ کم از کم ایک لاکھ روپے تک بنتی ہے لیکن پھر بھی ڈاکٹر حضرات اپنے کلینک کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونے دیتے اور غریب مریضوں کی کھال اتارنے میں پوری دس انگلیوں کا زور لگاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خاص طورپربچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیںاور علاج کے لیے پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں کی ٹھوکریں کھانے اوربروقت مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
پاکستان میں ادویہ ساز اداروں نے بیشتر ڈاکٹروں کے ساتھ مک مکا کررکھا ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اتنے لاکھ کی ادویہ استعمال کرائیں گے تو انہیں اتنے لاکھ کا چیک دیا جائے گا جبکہ 25 فیصد سے لے کر 50 فیصد تک کا کمیشن ڈاکٹر اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہ کمیشن کمپنیوں سے ایڈوانس کی شکل میں بھی لیا جاتا ہے اور یوں کمیشن ہولڈر ڈاکٹر اندھادھند مریضوں کو ادویہ لکھ دیتے ہیں اور اپنا ٹارگٹ پورا کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر ان کمپنیوں سے اپنے ذاتی گیس بجلی اور پانی کے بل تک بھی ادا کرواتے ہیں۔
آج بھی ملک کے دور دراز علاقوں ہی نہیں بلکہ کراچی ،لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے پسماندہ علاقوں میں جانورں کے انجکشن انسانوں پر بطور آزمائش استعمال کیے جاتے ہیں جس کے ثبوت اکثر ٹی وی پر آتے رہتے ہیں مگر حکمرانوں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔پاکستان میں بہت سی ایسی بیماریاں اور وبائی امراض غریب آبادیوں میں پائے جاتے ہیں جن کا علاج ممکن تو ہے مگر ان کے لیے ادویہ دستیاب نہیںہوتیں کیونکہ اس سے ادویہ ساز کمپنیوں کو زیادہ منافع ملنے کا امکان نہیں ہوتا۔
یہ حیران کن بات ہے کہ جنوب ایشیائی تعاون تنظیم (سارک)کے تینوں ممبر ممالک بنگلہ دیش،پاکستان اوربھارت مریضوں کے معائنے کے حوالے سے بدترین ممالک میں شمار ہوئے ہیں۔اگرچہ تینوں ممالک نے سارک کے ذریعے خطے میں صحت کی سہولیات عام کرنے سے متعلق کمیٹی بھی بنا رکھی ہے، تاہم خطے کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بی اے جے اوپن جرنل کی رپورٹ کے مطابق اس ڈیٹا کے لیے ماہرین نے 67 ممالک کے ڈاکٹروں کے ریکارڈ کا معائنہ کیا، یہ ریکارڈ 1953 سے 2016 تک کا تھا، اور سروے کے دوران 2 کروڑ 80 لاکھ دستاویزات کا جائزہ لیا گیا۔
سروے سے پتہ چلا کہ مریضوں کے معائنے کے لیے فرسٹ ورلڈ ممالک سرفہرست ہیں۔سروے میں شامل 67 ممالک میں سب سے زیادہ سویڈن کے ڈاکٹر مریضوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں، وہاں اوسطا ایک ڈاکٹر ایک مریض کو 22 منٹ تک دیکھتے ہیں۔یورپی ملک ناروے میں بھی ڈاکٹرز مریضوں کو 20 منٹ سے زائد وقت تک دیکھتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا بھی یورپی ممالک سے پیچھے ہے، وہاں کے ڈاکٹرز اوسطا ایک مریض کو 20 منٹ تک دیکھتے ہیں، جب کہ برطانیا کی حالت تو امریکا سے بھی بدتر ہے، جہاں ایک مریض کو ڈاکٹر اوسطا 10 منٹ سے کچھ زیادہ وقت دے پاتا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا اور برطانیا میں ہر سال ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں کو زیادہ وقت دینے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔امریکا میں ڈاکٹروںکی جانب سے معائنے کے وقت میں اوسطا سالانہ 12 سیکنڈز اور برطانیہ میں 4 سیکنڈز کا اضافہ ہو رہا ہے۔