میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نظریہ پاکستان کے بانی ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال

نظریہ پاکستان کے بانی ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال

منتظم
منگل, ۸ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ریاض احمد چودھری
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ءتا 21 اپریل 1938ئ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امتِ اسلام کی طرف تھا۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ءمیں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء(بمطابق 3 ذیقعدہ 1294ھ) کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ءکو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔
اقبال کے آباءو اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارہویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نور محمد کشمیر کے سپرو برہمنوں کی نسل سے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک بزرگ نے اسلام قبول کیا۔ کشمیری لوئیوں اور دھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔علامہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور گھر والے ہوئے۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں ا±ٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔
شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علماءکے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتداءہوئی۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آرہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے۔ معلوم ہوا تو وہاں سے ا±ٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کردیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں۔اس اچھے زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتا تھا۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی۔ اس کے علاوہ ادبیات، معقولات، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند ہوکر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ احساس بن جائے۔ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔
سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔ ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہوگئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے۔ کتاب کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے۔ زندگی اور اس کے بیچ فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں، خونِ گرم کا حصّہ نہیں بنتے۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے۔ حاضر جواب بھی بہت تھے۔ شیخ ن±ور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اور بے ساختگی کے ساتھ گزرا۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہوگئے، دونوں کا ہدف ایک ہوگیا۔ یہ جو اقبال کے یہاں حِس اور فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجمالاً محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہوگئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغہ اور وظیفہ ملا۔
یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کرلیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پورا برصغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا۔ خصوصاً ا±ردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ اقبال کویہی گرفت درکار تھی۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ جگت استاد تھے۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی ر±وپ تھے، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔
6 مئی 1893ءمیں اقبال نے میٹرک کیا اور 1895ءمیں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے۔ اپنے لیے انگریزی، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کئے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت تک اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ 1898ءمیں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی ر±خ متعین کر دیا۔
مارچ 1899ءمیں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ مشاعروں میں باصرار ب±لائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کردیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ءکو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوگئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہوگئی تو 1903ءمیں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال کاگورنمنٹ کالج میں تقرر ہوگیا۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔
مئی 1908ءمیں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چ±نے گئے اور اقبال کو مجلسِ عاملہ کا ر±کن نامزد کیا گیا۔قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدتِ الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہوگئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
بیسویں صدی کے عشرہ اول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک ٹھہراو¿ میں مبتلا تھی۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسرے سر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے، طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے۔ اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کو غیر وابستہ ہی رکھا۔
1911ءتک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین، سرسید کے حسب فرمان، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے، لیکن 1911ءاور 1912ءکے بیچ کے عرصے میں حالات جو ایک ڈھرّے پر چلے جارہے تھے، اچانک پلٹا کھا گئے۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کردیا گیا۔ اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گزشتہ اندازِ فکری کی غلطی ان پر واضح ہوگئی۔ انھیں اب آکر احساس ہوا کہ اپنی قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ رہنا یا انگریزوں کے بنائے ہوئے آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور بے معنی ہے۔ بقول مولانا شبلی نعمانی تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپّڑ مارنے کے مترادف تھی، جس نے ان کے منہ کا ر±خ پھیر کر رکھ دیا۔تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری، 1912ءکو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر ا±ٹھے اور فرمایا: ”مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاو¿ں مارنے چاہییں۔ ہندوو¿ں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا، اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! “
جنوبی ایشیا کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ محمد اقبال کو شاعر مشرق کے طور پہ جانتے ہیں۔ محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتب کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے معترف ہیں۔ بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں