میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اقبال اور آج کا نوجوان

اقبال اور آج کا نوجوان

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پرویز قمر
علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب کا نام شیخ نور محمد تھا جو بظاہر پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن مذہب اسلام سے بہت زیادہ لگاؤ اور درد رکھتے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام امام بی بی تھا جو کہ ایک نیک اور خدا ترس خاتون تھی۔ اور دوسروں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ علامہ اقبال نے قرآن پاک کی تعلیم مسجد میں قائم مدرسے سے حاصل کی، آپ کے استاد محترم کا نام سید میر حسن تھا۔ عربی زبان کی تعلیم ’’اسکاچ مشن کالج‘‘ سیالکوٹ سے حاصل کی۔ سیالکوٹ کے ہی ایک اسکول سے آپ نے میٹرک کی ڈگری 1893ء میں حاصل کی۔ فلاسفی کی تعلیم آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔ سرتھامس آرنلڈ آپ کے پسندیدہ استاد تھے۔علامہ اقبال نے جب ہوش سنبھالا تو انگریزوں کو مسلط پایا چنانچہ حالات مسلماں نے آپ کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے اور آپ امت مسلمہ کی زبو حالی پر مضطرب نظر آئے۔ان حالات میں آپ نے مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی کھوئی ہوئی عروج حاصل کرنے کے لیے اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے جنجھوڑا۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبال مسلم امہ کی بحالی عروج کی تڑپ میں مغموم رہتے تھے اسی سوچ نے آپ کی شاعری میں ایسا سوزو گداز پیدا کیا کہ آپ مفکر اسلام کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کو ولی صفت شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
ہم کون ہیں کیا ہیں باخدا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
ہیں یاد اگر تو کافر کے ترانے بس
آپ اصل اسلام اور بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر سخت پریشاں نظر آتے تھے اور آپ کا سارا وقت قوم کو ال بام عروج پر پہنچانے کی سوچ پر مرکوز رہتا تھا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے قیام کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مل کر جدوجہد شروع کی۔آپ کی شاعری نے لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ان کے قلب میں مسلمانوں کی اعلیٰ اسلاف کی قدروں کا درد سمٹ آیا اور مسلمان ایک قوم کی صورت برصغیر میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کرسکتا ہے اس نخلِ کمسن کو سرنگوں
آپ کی شاعری نے مسلمانان برصغیر کو سوئی حالت سے بیدار کردیا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذوق و سخن عطا کیا کہ آپ کی کہی گئی اقوال اور شاعری لوگوں کے روح میں شامل ہوکر اپنا اثر دکھاتی۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
علامہ اقبال کی شاعری میں خودی کا ایک پورا خزانہ نظر آتا ہے۔ وہ خودی کو اقوام کی ترقی کا باب سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بڑھے مؤثر اور خوبصورت اندازہ میں اس کا احاطہ کیا ہے۔ کیا خوب فرماتے ہیں۔
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ
زندگی نے ساتھ نہ دیا اور آپ 21 اپریل 1938 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔آپ کی دکھائی ہوئی روشن راہوں پر چل کر برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی سربراہی میں 14 اگست 1947ء کو اپنی منزل و مقصود پر پہنچ گئے اور اسلامی مملکت خداد کا قیام عمل میں آیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا نوجواں شاید اقبال کے افکار کو بھلا بیٹھا ہے وہ جدید ایجادات کی چکا چوند میں اپنی آنکھوں اور ذہنوں کو دھندلا چکا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں