امریکا و بھارت قبائلی علاقوں میں بدامنی پیدا کر رہے ہیں
شیئر کریں
شہزاد احمد
امریکی نشریاتی ادارہ بڑی مہارت کیساتھ پشتون علاقوں میں بلوچستان جیسی بدامنی کی راہ ہموار کر رہا ہے اور بھارت اس کا ساتھ دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ہمسایہ اور مسلم ملک افغانستان میں ہو رہا ہے۔بھارت افغانستان میں امریکی چھتری تلے بیٹھ کرقبائلی اور سرحدی علاقوں میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔ کبھی گریٹر پشتونستان کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے تو کبھی دہشت گردی کے ذریعے کے پی کے میں تباہی لائی جاتی ہے۔ امریکا بھی بھارت کا ساتھ دیتا ہے۔ افغان حکومت جو صرف کابل تک محدود ہے ، بھارت اور امریکا کی مرہون منت ہے ، ہر سازش میں ان کی شریک کار ہے۔
افغانستان میں بھارتی و امریکی نشریاتی ادارے پاکستان مخالف زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ نام نہاد ’’پشتونستان تحریک‘‘ کی بے سبب تشہیر کے پیچھے بھارت اور امریکی ریڈیو چینلز ہیں۔ مشال ریڈیو کے نام سے ایک طاقتور اور ہائی فری کوئنسی کا حامل ریڈیو بیرون ملک سے شر انگیز نشریات جاری رکھے ہوئے ہے اور ایک طرف بلوچستان اور دوسری طرف فاٹا کے نوجوان کو گمراہ کر رہا ہے۔ اس کی نشریات کویت سٹی، تھائی لینڈ، ابو ظہبی اور افغانستان سے نشر کی جا رہی ہیں۔
امریکی سرکاری ادارہ وائس آف امریکا ریڈیو اور ٹی وی پشتو زبان میں اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان نشریات کو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیلیے استعمال کیا جا رہاہے۔ وائس آف امریکا سے ایک پروگرام ’لو یہ خیبر پختونخواہ‘کے نام سے روزانہ نشر کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام ریڈیو اور ٹی وی دونوں پر نشر کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہی پروگرام انگریزی نام ’گریٹر پختونخواہ‘ کے عنوان سے نشر ہوتا تھا مگر اب اس کا نام بدل دیا گیا ہے مگر مقصد وہی ہے یعنی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا۔ اس پروگرام میں بڑی مہارت سے پشتونوں کی محرومیوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور انہیں آزادی کی جانب بڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس پروگرام میں تسلسل کے ساتھ ایک نام نہاد پروگرام شامل کیا جاتا ہے جسے تحریک پشتونستان کا نام دیا جاتا ہے۔ اس تحریک کا سربراہ صرف اس پروگرام میں ہی دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔
فاٹا میںغیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈا کرنے میں آزادی حاصل رہی ہے۔یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں۔ کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے۔ بے روزگار اور محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ان کا ٹارگٹ تھے ۔ مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے۔ فاٹا کے علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے۔ اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے۔ انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ غیر محسوس طریقے سے بیحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سسٹم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
فاٹا سے وائس آف امریکا کے ان پروگراموں کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک پشتون صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اس پروگرام کو سننے کے بعد فاٹا پختون خواہ اور افغانستان میں بھی قوم پرست حلقوں کو چیک کیا مگر کسی جگہ تحریک پشتونستان کے نام پر کوئی تنظیم یا تحریک دکھائی نہیں دی۔ وائس آف امریکا خالصتاً ایک جعلی اور بے اصل چیز کو سامنے لا کر دراصل ترغیب دے رہا ہے کہ اس نہج پر سوچا جائے۔ ایک تسلسل کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ پشتونوں کو اپنے مسائل کے حل کی خاطر آزاد ہونا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ پشتونوں کے متحد ہوئے بغیر انہیں آزادی نہیں مل سکتی اور آزادی کے بغیر ا ن کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔
چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ مفت تقسیم کیے گئے۔ اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈا ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بے خبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے۔ قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان بھی ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریڈیو کو مثبت استعمال کیا جائے۔ ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہوا تھا کہ صوبہ سرحد کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے۔ سرحد کے عوام نے جمہوری طریقے سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی رائے دے کر پاکستان میں شام ہوئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ضرورت تو یہ تھی کہ سرحدی گاندھی غفارخان اور اس کی پارٹی پاکستان کے مفادات کی حمایتی ہوتی۔مگر اس نے پاکستان کے ازلی دشمن، بھارت کے ساتھ ساز باز کرکے پشتونستان کا مسئلہ کھڑاکر دیا۔
بھارت سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں۔ اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے۔ فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔