سندھ کی سیاست میں نیا بھونچال جی ڈی اے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد
شیئر کریں
یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان ہی اس وقت ایسے مزاحمتی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں جس نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو سیاسی طورپر پریشان کردیا ہے اور نواز شریف کو اگر عدالتوں سے نااہل قرار دیا گیا ہے تو ان کو نااہل کرانے میں 100 فیصد کردار عمران خان کاہے اور انہوں نے اسمبلی کے اندر شاید اتنا موثر کردار ادا نہیں کیا لیکن اسمبلی کے باہر اور عدالتوں میں انہوں نے مزاحمتی کردار ادا کیا ہے سچ تو یہ ہے کہ اس وقت آصف زرداری اور نواز شریف کا حقیقی حریف صرف عمران خان ہے ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان نے ایک اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان نے سندھ میں جس طرح جلسے کئے ہیں اس سے آصف علی زرداری کو سیاسی طور پر پریشانی ضرور ہوئی ہے۔ ابھی تو عمران خان شاید چند سیاسی لوگوں کوہی پی ٹی آئی میں شامل کراسکے ہیں۔ لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے ساتھ بہت بڑی سیاسی کھیپ شامل ہوجائے گی۔
دوسری جانب سندھ میں اس وقت سیاسی طور پرسندھ میں نئی فضا قائم ہورہی ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے اس اتحاد نے خود کو ایک پارٹی کی طرح رجسٹرڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے اورساتھ ہی سندھ میں اہم سیاسی خاندانوں سے رابطے تیز کردیئے ہیں ۔صوبے بھرمیں جلسے جلوسوں کا پروگرام بنالیا گیا ہے جس سے حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کی پریشانیاں دوچندہوجائیں گیں۔ جی ڈی اے نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) سے بھی رابطہ کرلیا ہے تاکہ مشترکہ حکمت عملی کے تحت الیکشن میں حصہ لیا جاسکے جس کا ان کو مثبت جواب ملا ہے اب جو سیاسی تصویر بن رہی ہے اس میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) مل کر عام الیکشن میں حصہ لیں گے اور پھر پیپلز پارٹی کے خلاف ون ٹو ون امیدوار مقابلہ کریں گے۔ یوں اس مرتبہ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر عام انتخابات کی حکمت عملی طے کی جارہی ہے اس مرتبہ پی پی کے خلاف تمام پارٹیاں نہ صرف مشترکہ امیدوار لائیں گی بلکہ صوبہ بھر میں مشترکہ جلسے بھی کریں گی۔ تمام پارٹیوں نے پیر پگارا کی قیادت میں اعتماد کیا ہے اور تمام پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ اگر الگ الگ انتخابات میں حصہ لیا تو اس کا پی پی پی کو فائدہ ملے گا۔
اس مرتبہ حکومت سندھ اورپیپلز پارٹی کو ایک اور مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔کیوں کہ پی پی پی نے بہت سارے افرد کو پارٹی میں شامل کر رکھا ہے۔ جب عام انتخابات کااعلان ہوگا تو تمام لوگ ٹکٹ مانگیں گے اوران تمام لوگوں کو پارٹی کے لیے ٹکٹ دیناممکن نہیں ہوگا اس لیے بہت سارے لوگ ناراض ہوکر پارٹی سے علیحدگی بھی اختیار کرسکتے ہیں جوکسی دوسری پارٹی میں شامل ہوکر یاآزادحیثیت میں الیکشن میں کھڑے ہوکر پی پی پی کے ہی مقابل آئیں گے ۔ ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
پیپلزپارٹی کی زیرک قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے اس لیے انھوں نے ابھی ایسے لوگوں کاانتخاب شروع کردیاہے جواپنی اپنی نشست پر سو فیصد کامیابی سمیت سکتے ہیں۔ان لوگوں کوہی پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پارٹی میں موجود رہنمائوں کے بارے میں یہ بھی اندازے لگائے جارہے ہیں کہ کون کون سارکن اسمبلی عوام میں اپنی مقبولیت کم کرتاجارہاہے ۔
پاکستان پیپلزپارٹی کوششیں اورتیاریا ںاپنی جگہ لیکن جی ڈی اے نے جس طرح سنجیدگی سے اپنی ابتدا کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دفعہ پی پی پی کو ٹف ٹائم ملے گا ۔جبکہ خودپیپلزپارٹی کواپنے ناراض رہنمائوں کوسنبھالنابھی پڑے گا،جوآئندہ عام انتخابات میں ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جی ڈی اے نے نچلی سطح پر مختلف شخصیات سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے اور ان سے رائے لی جارہی ہے کہ وہ بتائیں کہ کس حلقے میں کس کو ٹکٹ دیا جائے تاکہ وہ الیکشن میں پی پی پی کا مقابلہ کرسکیں۔ جی ڈی اے نے یہ کمال بھی کر دکھایا ہے کہ قومی سطح پر دو سیاسی مخالف پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو سندھ میں ایک جگہ بٹھا دیا ہے۔ اس کے لیے ان کا کہنا ہے کہ سب پارٹیوں کو سندھ کے حالات اور سیاسی پیچیدگیوں کا پتہ ہے اس لیے سب یہی چاہتے ہیں کہ سندھ میں پی پی پی سے جان چھوٹ جائے اور سندھ میں ایسی سیاسی پارٹیاں اور سیاسی اتحاد آگے آجائیں اور وہ آکر صوبہ کی باگ ڈور سنبھالیں تاکہ سندھ میں پچھلے دس برسوں سے جو لوٹ مار ہورہی ہے اس کا خاتمہ ہوسکے جی ڈی اے کی کوششیں قابل ستائش ضرور ہیں۔