میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا سے بھی پی پی کا صفایا ہوگیا

پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا سے بھی پی پی کا صفایا ہوگیا

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

کپتان کی الیکشن کمیشن سے معذرت کا این اے 4 کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا
پنجاب میں نقب لگانے کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین کو رویہ میں تبدیلی لانا ہوگی، تجزیہ
اسلام آباد(تجزیہ: ظفر محمود شیخ)سیاست میں بہت سے انہونیاں بھی ہوجاتی ہیں وہ عمران خان کا الیکشن کمیشن سے معافی مانگناہے۔ سرکاری سطح پر تو اس فیصلہ پر بغلیں بجائی جارہی ہیں اور سوشل میڈیا بریگیڈ نے طومار باندھ دیا اور اخلاقی سطح سے نہایت نیچے اتر کر غلیظ سطح پر تبصرے کیے جارہے ہیں، تاہم وہ یہ بھول گئے کہ معافی مانگنا کسی بھی سیاست دان کے لیے ڈس کریڈٹ یا غیر اخلاقی چیز نہیں، بلکہ اعلیٰ بات ہے۔ عمران خان اس سے قبل بھی دو بار قوم سے معافی مانگ چکے ہیں، ایک بار وہ اپنے کمزور ماضی کے حوالہ سے اور دوسری بار پرویز مشرف کی حمایت کرنے پر معافی مانگ چکے ہیں اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان دونوں غلطیوں کا مداوا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے، اب اس میں کتنے کامیاب رہے اور کتنے ناکام رہے یہ الگ بات ہے اور جہاں تک الیکشن کمیشن سے معافی مانگنے کی بات یہ انہوں نے اپنے انداز اور الفاظ اور رویوں پر معافی مانگی ہے، مگر ان کی الیکشن کمیشن سے شکایات بجا ہیں کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے حکومت کی بی ٹیم ہونے اور صرف حکومت کے مخالفین پر ہی قواعد کا ڈنڈا چلایا اور حکومتی خلاف ورزیوں بدمعاشیوں اور قانون کی دھجیاں اُڑانے سے ہمیشہ صرف نظر کیاہے۔ اب یہ بھی ایک بدنیتی کی بات تھی کہ کمیشن نے اس پیشی کے لیے 26 اکتوبر کی وہ تاریخ رکھی جس روز پشاور کے حلقہ این اے چار میں ایسا ضمنی انتخاب ہونے جارہا تھا جس کے نتیجہ کا عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست پر گہرا اثر پڑنا تھا، مگر عمران خان نے پہلے سے اعلان کرکے نہ صرف کمیشن میں پیش ہونے بلکہ اپنے موقف سے پیچھے بھی ہٹ گئے، جو عمران خان جیسی شخصیت اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے لیے انتہائی اہم بات ہے۔تجزیوں میں ابھی تین روز قبل ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں کمزور کارکردگی کے سبب عمران کی پارٹی مشکلات کا شکار ہے، چنانچہ حلقہ این اے 4 کے ضمنی انتخاب کے نتیجہ نے کامیابی کے باوجود یہ بتا دیا ہے کہ صوبہ میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک متاثر ہوا ہے۔ انہیں گزشتہ انتخابات کے مقابلہ میں کم ووٹ پڑے، جبکہ ان کی مدمقابل مسلم لیگ (ن) دو پارٹیوں اور اربوں روپوں کے فنڈز استعمال کرنے کے باوجود اپنی پوزیشن کو زیادہ بہتر نہیں کرپائی، گزستہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے تن تنہا 20 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے، جبکہ مولانا فضل الرحمان کی پانچویں نمبر پر آکر 12500 ووٹ لینے والی پارٹی کی حمایت بھی زیادہ ووٹ نہ دلوا سکی۔آفتاب شیرپائو کی قومی عوامی پارٹی کی حمایت کا بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پر زیادہ اثر نہیں پڑا ، جماعت اسلامی جو ساڑھے 16ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر تھی اس بار بمشکل 6 ہزار ووٹ لے پائی ہے، ہاں حیران کن کارکردگی عوامی نیشنل پارٹی کی ہے، جو تیسرے نمبر پر آئی اور اس نے ضمنی انتخاب ہونے کے باوجود بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ کی طرح میڈیا کی حمایت سے اس ریس میں تھی، مگر نتائج نے بتادیا ہے کہ پنجاب کی طرح سرحد سے بھی پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان نہیں ڈالی جاسکتی، حالانکہ انہوں نے تحریک انصاف کے انتقال کرجانے والے امیدوار کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی، جو ناکام رہی ہے۔ اب اگر عمران خان نے اپنی ناکامیوں سے سبق لینے کا عزم کرہی لیا ہے تو انہیں صوبہ کے پی کے میں اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے، وگرنہ ن لیگ کے گڑھ پنجاب میں نقب لگانے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان اچھے سیاست دان کی طرح اپنی نچلی سطح کی ٹیم کو متحرک کریں اور انہین حوصلہ و عزت دینے کے ساتھ ساتھ صوبائی فنڈز میں سے بنیادی ترقیاتی کاموں کو تیزی سے آگے بڑھائیں، وگرنہ ان کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ محض نواز شریف کو گرا لینے کی کامیابی کی بنیاد پر غیور پٹھانوں کے دل اور ووٹ نہیں جیتے جاسکتے۔
تجزیہ


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں